ملک میں مسلمانوں میں جوہلکی سی بیداری تعلیم کے شعبے میں پیداہوئی ہے،اس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے اور تعلیم کے میدان میں بہتری کے لیے جگہ جگہ اپنے تعلیمی ادارے اوردرسگاہیں قائم کرنے کے عمل میں اور تیزی لانا اورتعلیم کے حصول کوترجیح دینی چاہئیے،اس کے علاوہ اقامتی درسگاہوں کی خصوصی ضرورت ہے،یہی چیز مسلمانوں کے بہتر مستقبل کی ضامن ہو گی ،ان خیالات کا اظہار کاشاہین گروپس آف انسٹی ٹیوشن کے روح رواں ڈاکٹر عبد القدیر نے نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران یہاں کیا۔ Muslims Need to Come Forward in the Field of Education
انہوں نے مزید کہ کہا کہ ہمیں اس اہم مقصدکے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کی مدد لینی ہوگی،جوکہ تعلیمی اداروں کوایک نئے انداز میں آگے بڑھارہے ہیں۔ واضح رہے کہ شاہین گروپس آف انسٹی ٹیوشن کرناٹک کے شہر بیدر میں واقع ہے۔ بیدر میں مسلمان 19 فیصد ہیں،لیکن کرناٹک کایہ تاریخی شہربہمنی سلاطین کا پایہ تخت رہ چکا ہے، اقامتی تعلیمی ادارہ شاہین گروپس آف انسٹی ٹیوشن کے لیے بیدر مشہور ہوگیا ہے اور اس کی وجہ یہاں تعلیمی انقلاب برپا کردیا اور اس کا اعتراف غیر مسلم بھی کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر عبد القدیر نے کہاکہ کی ان کے ادارہ شاہین کی ملک کے مختلف علاقوں میں مراکز اور شاخیں قائم کی گئی ہیں ،انہوں نے مسلمانوں میں جس نئے فارمولے کے ساتھ تعلیمی بیداری پیدا کی ہے ،اس کی وجہ سے اقلیتی فرقے کوتعلیم کی حصولیابی آسان مرحلہ ہوسکتا ہے، لیکن اس مقصد کے لیے کس حد تک محنت کی گئی ہے۔اور ایماندار انہ کوشش کاثمر بھی مل رہاہے، جنوبی ہند کی پڑوسی ریاستوں میں ہی نہیں بلکہ دورافتادہ خطوں جیسے آسام ،اترپردیش،بہاروغیرہ میں بھی شاخیں قائم کی گئی ہیں ،جبکہ بیدرشہر کے اس اقامتی کیمپس درسگاہ میں تقریباً ساڑھے چارہزار طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ شہر کے طلبہ بھی روزانہ تعلیم کی غرض سے آتے ہیں۔
شاہین میں عام تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ہی کئی شعبوں کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں ،نیٹ کے لیے ذہین بچوں کے لیے خصوصی تیاری کا نظام ہےجبکہ یوپی ایس سی اورذہانت کی بہتری کے لیےاین ٹی ایس کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید مطلع کیاکہ شاہین کے تعلیمی مشن کے تحت ایک ایسا شعبہ (اے آئی سی یو)بھی قائم کیاگیا ہے، جس کے تحت دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور حفاظ اور ڈراپ آوٹ بچوں کو قلیل تعداد میں ایک معلم کی نگرانی میں ان کی ذہانت اور صلاحیت کو ابھارنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔
اس ادارہ نے سب سے زیادہ شہرت حفظ پلس اسکیم کی وجہ سے حاصل کی ہے ،مذکورہ اسکیم کے تحت حفاظ کو عصری تعلیم سے بھی ہمکنار کرایاجاتا ہے،یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ان حفاظ کی بڑی تعداد میڈیکل اور انجینرنگ کی تعلیم میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔اس طرز پر ملک بھر میں اب دوسرے ادارے بھی کام کررہے ہیں اور یہ فارمولہ نافذ کرکے دینی اداروں کے بچوں پر توجہ دی گئی ہے،ڈراپ آؤٹ بچوں کوآے آئی سی یو کے تحت تربیت دے کر ان کی ذہانت کو ابھارا جاتا ہے اور اس مقصد میں اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔