آئی ایم اے دھوکہ دہی کے سلسلے میں یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ یہ کوئی کاروبار نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ جس کی بنیاد ہی دھوکے پر رکھی گئی تھی۔ اس بات کی تصدیق محکمہ محصول نے اسے ایک پونزی و غیر قانونی قرار دینے سے کی تھی اور آر بی آئی کی ایک نوٹس کے مطابق یہ ایک پونزی اسکیم تھی۔
اس کمپنی کے دھوکہ باز ذمہ دار بڑی تعداد میں سونے کے فرضی بسکٹ لوگوں کو دکھاکر اپنی کمپنی میں سرمایہ لگانے کے لئے راغب کرتے تھے اور ساتھ ہی علماء و میڈیا کو ان لوگوں نے اپنے غلط مقاصد کے لئے جم کر استعمال کیا۔
آئی ایم اے تقریباً 5000 کروڑ کا ریاست کا سب سے بڑا کرپشن ہے۔ جس کے تحفظ و فروغ میں گویا حکومت کا بیشتر نظام سنجیدگی سے متحرک تھا۔ اس بات کی وضاحت ایسے ہوتی ہے کہ آئی ایم اے کا سرغنہ محمد منصور خان نے ایس آئی ٹی کے سامنے انکشاف کیا ہے کہ اس نے اپنے غیر قانونی پونزی اسکیم کو چلانے کے لئے کئی سیاست دانوں و سرکاری افسران جن میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، کو 1،700 کروڑ روپیے کی خطیر رقم کی رشوت دی ہے۔
ایس آئی ٹی سے کئے گئے آئی ایم اے کی تحقیقات کے دوران کئی چھوٹے سیاستدان و سرکاری اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا۔ جن میں ایک ڈپٹی کمیشنر اور اسسٹنٹ کمشنر اور ایک عالم دین بھی شامل ہیں۔
ایس آئی ٹی نے اپنی تحقیقات میں کل 26 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ اس معاملہ میں کانگریس کے دو بڑے سیاست دانوں کے نام بھی آئے ہیں۔ سابق ریاستی وزیر اور سابق رکن اسمبلی روشن بیگ پر منصور خان نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے 400 کروڑ روپے لئے ہیں اور مانگ کرنے پر غنڈوں سے دھمکیاں دلوائیں۔ حالانکہ ایس آئی ٹی نے متعدد مرتبہ روشن بیگ کو تحقیقات کے لئے حاضر ہونے کی نوٹس جاری کئے لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے۔
سابق ریاستی وزیر ضمیر احمد خان کو انفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ اور ایس آئی ٹی نے کئی بار بلاکر پوچھ گچھ کی ہیں۔
اب تک ریاستی حکومت کی جانب سے ریاست بھر کے مختلف اضلاع میں آئی ایم اے کی تقریباً 300 کروڑ کی مالیت کی کئی جائیدادیں ضبط کی گئی ہیں۔
آئی ایم اے دھوکہ دہی میں نافذ کئے جارہے قوانین:
1. کے پی آئی ڈی ایکٹ (کرناٹک پروٹیکشن آف انویسٹرز ایکٹ)
2. پی ایم ایل اے ایکٹ (پریوینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ)
3. بُڈس (بی یو ڈی ایس) قانون کے نفاذ کی مانگ
بی یو ڈی ایس یا بُڈس لوک سبھا و راجیہ سبھا سے حال ہی میں پاس کیا گیا ہے، جس کی خصوصیات یہ ہے کہ اس ایکٹ کے تحت ایک الگ اسپیشل کورٹ کا قیام کیا جائے اور اس کے تحت پورے معاملہ کو 180 دنوں میں مکمل کر کے کمپنی کی تمام تر جائیدادوں کو ضبط کرکے سرمایہ کاروں کو ان کا سرمایہ واپس کیا جائے۔
شہر بنگلور کی مقامی تنظیم 'لنچہ مکتی کرناٹکا' نے اس تعلق سے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے کہ آئی ایم اے دھوکہ دہی کے معاملہ میں بُڈس ایکٹ نافذ کیا جائے۔