ریاست کرناٹک میں آج برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی حکومت کی کابینہ نے بی ایس یدیورپا کی قیادت میں میٹنگ کی۔ جس میں یہ طے پایا کہ گئو کشی مخالف قانون کے نفاذ کے لئے آرڈیننس لایا جائے گا۔
'گئو کشی قانون کا شکار صرف مسلمان نہیں ہوں گے' برسر اقتدار بی جے پی پارٹی نے اسے گجرات و اتر پردیش کے طرز پر تیار کیا ہے، ایوان زیریں میں اسے پاس کردیا گیا ہے اور ایوان بالا میں پیش کیا جانا ہے۔
اس معاملے پر کئی اہم شخصیات کا کہنا ہے کہ 'یہ قانون نفرت کی سیاست پر مبنی ہے۔ اس سے سماجی دشمن عناصر کی غنڈہ گردی کو تقویت ملے گی۔ جس سے نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر کمزور طبقات بھی شکار ہوں گے۔'
اس بل کے متعلق سماجی و سیاسی تنظیموں کے قائدین کا کہنا ہے کہ 'اگر اس بل کو قانون کی شکل مل جاتی ہے تو اس سے ریاست میں ماب لینچنگ بڑھے گی، اور شرپسند عناصر کو کھلی چھوٹ مل جائے گی کہ وہ مسلمانوں، دلت و دیگر کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے کاروباریوں پر زیادتی کریں۔'
وہیں عدالت میں اس بل کو چیلنچ کرنے والی عرضی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر نے کہا کہ اس بل کو چیلنج کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، یہ قانون 1964 سے نافذ العمل ہے۔ حکومت اب گئو نسل کی غیر قانونی فروخت، ٹرانسپورٹیشن و گئوکشی کے عمل کو قابل سزا جرم کے زمرے میں شامل کرے گی۔
نیز بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی تیسرا فریق اگر گائے کی نسل کے جانوروں کی غیر قانونی فروخت یا اس کی مارکیٹنگ کی اطلاع دیتا ہے تو شکایت کنندہ کے خلاف کوئی شکایت نہیں درج کی جائیگی ۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی نے گئوکشی بل 2020 کو اپنی اکثریت کے بنا پر اسمبلی میں منظور کرالیا تھا، لیکن ایوان بالا میں کانگریس کے احتجاج کی وجہ سے یہ پاس نہیں ہو پایا تھا، جس کے نتیجے میں یہ قانون نہیں بن سکا تھا۔