ریاست کرناٹک کے اڈوپی کے سرکاری پی یو کالج میں زیر تعلیم طالبات میں سے چند طالبہ حجاب پہننے کی وجہ سے انہیں کلاس روم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ جسی کی مخالفت میں طالبہ گزشتہ ایک ماہ سےاحتجاج پر بیٹھی ہیں۔
عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں اس سلسلے میں کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سن 1985 میں کالج کے وضع کردہ اصول کے مطابق طالبہ کے لئے جماعت کے اندر حجاب پہن کر جانے پر پابندی عائد ہے۔ جب کہ چند طالبات کا کہنا ہے کہ حجاب ان کا دستوری حق ہے۔ لہذا ان کے اس حق پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی ہے۔
مذکورہ معاملہ کے تعلق سے منگلور سے رکن اسمبلی یو ٹی قادری سے جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے سوال کیا تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلا شبہ حجاب کا معاملہ ایک مقامی و چھوٹا مسئلہ ہے۔اور کالج انتظامیہ اور طالبہ کے سرپرست کے درمیان ہی حل کیا جاتا ۔لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔اور اس معاملہ کو طول دیا گیا۔
یو ٹی قادرنے اڈوپی حجاب معاملہ پر کہا کہ اس معاملہ میں غیر ضروری مداخلت سے طول بڑھا ہے ۔لہذا اب طلبا کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ انصاف کے حصول کے لئے عدالت کا دروازہ کھکھٹائیں۔
کیا کہتی ہے عدلیہ حجاب کے مسئلے پر؟
گزشتہ کئی سال قبل میڈیکل انٹرینس ٹیسٹ کے دوران چیٹنگ کے روکنے کے کے لئے ایک مخصوص ڈریس کوڈ کا کا نتخاب کیا گیا تھا۔ تاکہ طلباء دوران امتحان کسی چیز کو چھپا نہ سکیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مالم لڑکیاں ایکزام ہال میں حجاب یا لمبی سلیو والے کرتے پہن کر نہیں جائینگی۔ تاہم طلباء نے سن 2005 اور 2006 میں کیرالہ ہائ کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ جس کے جواب میں عدالت نے طالبات کو حجاب پہن کر امتحان دینے کی اجازت دے دی تھی.
دین اسلام میں حجاب کی اہمیت کے متعلق ہائی کورٹ کا جائزہ
2016 میں کیرالہ ہائی کورٹ نے قرآن اور حدیث (پیغمبر محمد صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات) کا جائزہ لیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا حجاب اور لمبے سلیو والا لباس پہننا ایک مسلم خاتون کے لئے ضروری ہے۔ اس میں کہا گیا کہ ان عبارتوں کے تجزیے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ سر ڈھانپنا اور لمبی بازو کا لباس پہننا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ اس طرح یہ "اسلام مذہب کا ایک لازمی حصہ" بنتا ہے۔