گزشتہ برس 14 فروری کو جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ میں اکثریت پسند کے خودکش حملے میں 40 جوان شہید ہوگئے تھے۔ شہید ہونے والے ان جوانوں میں گملا ضلع کے بسیا بلاک علاقے کے فرساما گاؤں کے رہنے والے وجئے سورینگ بھی شامل تھے۔
اس حملے کے بعد ریاستی حکومت نے اپنی ریاست کے شہید جوانوں کے اہل خانہ کو لاکھوں روپے کی مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
شہید وجئے سورینگ کی شہادت کو ایک برس مکمل اسی بنیاد پر وجئے سورینگ کے اہل خانہ کو اس وقت کی موجودہ حکومت نے 10 لاکھ روپے مالی امداد کے طور پر دیا تھا۔
لیکن اس میں سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ جھارکھنڈ حکومت کے وزراء، اراکین اسمبلی سمیت سیکریٹریٹ کے عہدیداروں، ملازمین کے ذریعہ اعلان کردہ ایک دن کی تنخواہ کو ابھی تک شہید کے اہل خانہ کو موصول نہیں ہوا ہے۔ جبکہ وجئے سورینگ کی شہادت کو ایک سال مکمل ہوگئے ہیں۔
اس وقت کے جھارکھنڈ کے گورنر، ودھان سبھا اسپیکر، وزیر اعلی، وزراء اور دیگر وی آئی پیز نے رانچی میں وجئے سورینگ کی جسد خاکی پرخراج تحسین پیش کیا۔
وجئے سنگھ کو ریاستی حکومت کی جانب سے 10 لاکھ، جھارکھنڈ کے وزیر اور ایم ایل اے، سکریٹریٹ کے عہدیداروں اور ملازمین نے اپنے ایک دن کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا تھا، لیکن ایک برس مکمل گزرنے کے بعد بھی یہ اعلانات صرف اعلان ہی رہے ہیں۔
وہیں سی سی ایل اور بی سی سی ایل کے ملازمین نے بھی ایک دن کی تنخواہ شہید کے اہل خانہ کو دینے کا اعلان کی تھی، لیکن یہ رقم بھی ابھی تک انہیں نہیں ملی ہے۔
شہید وجئے سورینگ کی والد اور والدہ گاؤں میں ہی رہتے ہیں، جبکہ ان کی اہلیہ اور بچے رانچی میں رہائش پذیر ہیں۔
شہید وجئے سورینگ کے والد نے بتایا کہ جب بیٹا شہید ہوا تھا اس وقت کی موجودہ حکومت کے ساتھ کئی تنظیموں کی جانب سے مالی امداد دینے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن آج ایک برس مکمل ہوگئے ہیں کسی نے بھی خیر خبر نہیں لی۔ وہیں کافی جدوجہد کے بعد حکومت کی جانب سے اعلان شدہ 10 لاکھ روپے کی مالی امداد ملی ہے۔
واضح رہے کہ مارچ 2019 میں ہی بی سی سی ایل کی جانب سے 90 لاکھ روپے اور سی سی ایل کی جانب سے 84 لاکھ روپے اپنے ملازمین کے ایک دن کے تنخواہ سے کاٹ کر جمع کیا گیا ہے۔
اس معاملے میں ضلع کے ڈپٹی کمیشنر نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اعلان شدہ رقم شہید کے اہل خانہ کو دی گئی ہے۔اس کے ساتھ ہی متعدد دیگر تنظیموں کے لوگوں نے بھی شہید کے اہل خانہ کو مدد فراہم کی ہے۔
ڈی سی نے بتایا کہ دیگر اعلانات کے بارے میں انہیں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔
خیر سرکاری کاموں میں تاخیر عام بات ہے۔جس طرح سے شہید کے اہل خانہ کے ساتھ ان کے بیٹے کی شہادت کے بعد اعلانات کو عمل میں نہیں لایا گیا ہے، اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اب شہادت کو بھی لوگ محض سرکاری اعلان مانتے ہیں جو کبھی مکمل ہوتا ہے تو کبھی ادھورا ہی رہتا ہے۔