جہاں ایک طرف بھارت اور پاکستان کلبھوشن جادھو معاملے میں اپنی اپنی جیت کا دعوی کر رہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف ریاست جموں و کشمیر میں ماہرین قانون کا ماننا ہے کہ " جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے کسی ملک کی نہیں۔"
کلبھوشن معاملے پر قانونی ماہرین کا کیا کہنا ہے؟ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ماہر قانون کا کہنا تھا کہ " عالمی عدالت انصاف کا وجود انصاف کرنے کے لیے عمل میں آیا تھا۔ کلبھوشن معاملے کو بھارت اور پاکستان جیت اور ہار کے ترازو میں تول رہے ہیں۔ اصل میں وہ اس مسئلے کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا حقیقت میں انصاف کی جیت ہوئی ہے؟"۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ "کلبھوشن کی پھانسی کی سزا پر نظرثانی کا مطلب ہے کہ پاکستان کے کورٹ سے معاملے کا دوبارہ جائزہ کروانا۔ جائزے کے بعد سزا برقرار بھی رہ سکتی ہے، رعایت بھی مل سکتی ہے یا پھر کلبھوشن کو رہا بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب پاکستان کی عدالت پر منحصر ہے۔"
ماہر قانون شبیر احمد کا ماننا ہے کہ "عالمی قوانیں انسانیت کو نظر میں رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ تو ایسے میں عالمی عدالت انصاف بھارت کی قونصلر ایکسس کے مطالبے کو منظوری دے کر پاکستان کو کلبھوشن جادھو سے سفیروں کو ملنے کی اجازت دینے کا حکم دیتا ہے تو اچھا کرتا ہے۔ اس میں جیت یا ہار کہاں ہوئی؟ اور جہاں تک نظر ثانی کرنے کی بات ہے تو معاملے کا دوبارہ جائزہ لینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کلبھوشن کو آزاد کردیا جائے گا یا پھر ان کی سزا کم کی جائے گی۔پاکستان کی عدالت معاملے کو اپنے طور سے دیکھی گی اور صرف فیصلہ سنائے گی۔ انسانیت کے معاملوں میں فتح اور شکست نہیں ہوتی بس انصاف کی جیت ہوتی ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ " پاکستان کو اگر کلبھوشن کو پھانسی دینی ہوتی تو وہ دے چکا ہوتا۔ پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ ماننا کوئی لازمی نہیں ہے۔ یہ ان کی مرضی ہے وہ عمل کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ بھارت کے سابق وزیراعظم جواہر لال نہرو بھی عالمی سطح پر کشمیر کا معاملہ لے کر گئے تھے اور رائے شماری کرانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اب تک نہ بھارت نے نہ پاکستان نے ایسا کچھ کیا۔"
پاکستان نے کلبھوشن پر حسن مبارک پٹیل کے نام سے پاکستان میں رہنے اور بھارت کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگایا ہے۔ پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے اپریل 2017 میں جاسوسی اور دہشت گردی کے معاملے میں کلبھوشن کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔