جموں و کشمیر کی عدالت عالیہ نے چند روز قبل انتظامیہ کو ایک مفاد عامہ کے تحت دائر عرضی کے حوالے سے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندی کو یا تو مرکزی زیر انتظام علاقے کی سرکاری زبان قرار دیا جائے یا پھر یہاں کی زبانوں میں شامل کیا جائے۔ اس نوٹس کے بعد اردو ادب سے جڑے افراد میں تشویش پائی جارہی ہیں۔
جموں یونیورسٹی شعبہ اردو کے سربراہ پروفسر شعیب عنایت نے جموں کشمیر سے اردو کو ختم کرنے کو بد قسمتی سے تعبیر کیا اور انتظامیہ سے اپیل کی کہ جموں کشمیر کی سالمیت کے لئے اور عوامی مفاد کے لئے اردو زبان کا سرکاری زبان کا درجہ برقرار رکھے۔
انہوں نے کہا اردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے۔ اگر اس زبان کو ختم کیا گیا یا سرکاری زبان کا درجہ نہ دیا گیا تو جموں کشمیر کو بہت بڑا نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان سے جموں، کشمیر، لداخ کے خطے متحد ہے اور اس زبان کی اہمیت کو سمجھ کر ڈوگرہ حکمرانوں نے اسے سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔
'اردو زبان جموں کشمیر اور لداخ کے اتحاد کی علامت' سینئر صحافی سہیل کاظمی نے اردو زبان کو جموں کشمیر میں ختم کرنے کے پیچھے مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ زبان کو بھی اب مذہبی رنگ دے کر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر: ’ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے‘
انہوں نے کہا کہ یہ لوگ تاریخ، زبان اور مذہبی احساسات کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اردو جموں کشمیر کی سرکاری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیب و تاریخ کا حصہ ہے جس کے پورے برصغیر میں بولنے والے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ اردو زبان کو کسی خاص طبقے سے نہ جوڑا جائے بلکہ اس زبان کو مزید فروغ دیا جائے۔
شعبہ اردو کے ایک لیکچرار ڈاکٹر نصیب چودھری نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اردو زبان کو جموں کشمیر میں سرکاری زبان کا درجہ ملا ہے اس کی مخالفت کرنے والے لوگ خود اور خطہ کے ساتھ ن انصافی کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اردو کو ختم کرنے کی سازش کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ اردو واحد زبان ہے جو جموں کشمیر اور لداخ کے تینوں خطوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔
بتادیں کہ اردو جموں و کشمیر میں بولی جانے والی 30 یا اس سے زیادہ کسی بھی زبان سے مماثلت نہیں رکھتی ہے لیکن صرف 0.13 فیصد (مردم شماری 2011) مقامی افراد کے بولنے والوں کی تعداد کے ساتھ اردو نے آسانی سے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ درحقیقت یہ'باہری زبان' ہونے کی وجہ سے ہی جموں و کشمیر اور لداخ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔
فارسی 14 ویں صدی سے اس خطے میں موجود تھی اور 1845 میں انگریزوں کی آمد تک یہ سرکاری زبان کے طور استعمال ہوتی تھی۔ اس کی موجودگی سے لداخ سمیت پورے جموں و کشمیر میں اردو کی نشوونما اور ترقی میں آسانی ہوئی۔
قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں 1889 سے اردو سرکاری زبان کے طور استعمال کی جا رہی ہے۔