جموں (جموں کشمیر): جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے پیر کے روز کہا کہ ان کا گماہ ہے کہ قطر کی طرف سے بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق فوجیوں کو موت کی سزا سنانا اسرائیل اور فلسطین کی جاری جنگ پر بھارت کے موقف کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ قطر اس معاملے پر تین سال سے (تقریباً خاموش) بیٹھا تھا اور یہ حیران کن طور پر انہیں موت کی سزا سنائے جانے کا یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب بھارت اسرائیل کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھنے اور اسرائیل کے لیے کچھ ہمدردی ظاہر کرنے کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بھارت کا اسرائیل کی جانب واضح جھکاؤ اس وقت سامنے آیا جب ہندوستان نے 27 اکتوبر کو غزہ جنگ بندی پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ووٹ کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔
26 اکتوبر کو قطر کی ایک عدالت نے ہندوستانی بحریہ کے اُن سابق آٹھ افسران کو جو ایک نجی کمپنی کے لیے کام کرتے تھے، موت کی سزا سنائی۔ ہندوستان کیوزارت خارجہ نے اس فیصلے پر کہا تھا اس سے ’’گہرا صدمہ‘‘ پہنچا ہے اور وہ تمام قانونی آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ ان سبھی آٹھ افسران کے خلاف الزامات کو عام نہیں کیا گیا تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق انہیں خفیہ معلومات تیسرے ملک کو منتقل کرنے کے شبہ میں حراست میں لیا گیا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا حماس اور فلسطین کے معاملے پر ہندوستان کا رویہ قطر کے فیصلے کی وجہ ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر عبداللہ نے کہا: ’’وہ (قطر) تین سال سے اس مسئلے پر (خاموش) بیٹھے تھے، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ اب فیصلہ آ گیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ قطر نے فوری طور پر ان (سابق) بحریہ کے اہلکاروں کو موت کی سزا سنادی۔ فیصلہ تین سال کے انتظار کے بعد آیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ بھی (قطر کی حکومت) شاید ہم سے اس بات پر متفق نہیں ہونا چاہتے کہ ہمارا (ہندوستان کا) موقف کیا ہے۔‘‘