اردو

urdu

ETV Bharat / state

Farooq Abdullah on Indian Stand on Israel: بحریہ کے افسران کو موت کی سزا اسرائیل پر بھارتی موقف کا شاخسانہ، فاروق عبداللہ

جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاست دان ڈاکٹر فاروق عبد اللہ کا ماننا ہے کہ اسرائیل - فلسطین جنگ کے بارے میں بھارتی موقف کے سبب ہی قطر نے ہندوستانی بحریہ کے آٹھ سابق فوجیوں کو موت کی سزا سنانے میں عجلت سے کام لیا۔ ای ٹی وی بھارت کے سوربھ شرما کی رپورٹ۔

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 30, 2023, 7:02 PM IST

ا
ا

جموں (جموں کشمیر): جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے پیر کے روز کہا کہ ان کا گماہ ہے کہ قطر کی طرف سے بھارتی بحریہ کے آٹھ سابق فوجیوں کو موت کی سزا سنانا اسرائیل اور فلسطین کی جاری جنگ پر بھارت کے موقف کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے کہا کہ قطر اس معاملے پر تین سال سے (تقریباً خاموش) بیٹھا تھا اور یہ حیران کن طور پر انہیں موت کی سزا سنائے جانے کا یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب بھارت اسرائیل کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھنے اور اسرائیل کے لیے کچھ ہمدردی ظاہر کرنے کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بھارت کا اسرائیل کی جانب واضح جھکاؤ اس وقت سامنے آیا جب ہندوستان نے 27 اکتوبر کو غزہ جنگ بندی پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ووٹ کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔

26 اکتوبر کو قطر کی ایک عدالت نے ہندوستانی بحریہ کے اُن سابق آٹھ افسران کو جو ایک نجی کمپنی کے لیے کام کرتے تھے، موت کی سزا سنائی۔ ہندوستان کیوزارت خارجہ نے اس فیصلے پر کہا تھا اس سے ’’گہرا صدمہ‘‘ پہنچا ہے اور وہ تمام قانونی آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔ ان سبھی آٹھ افسران کے خلاف الزامات کو عام نہیں کیا گیا تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق انہیں خفیہ معلومات تیسرے ملک کو منتقل کرنے کے شبہ میں حراست میں لیا گیا تھا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا حماس اور فلسطین کے معاملے پر ہندوستان کا رویہ قطر کے فیصلے کی وجہ ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر عبداللہ نے کہا: ’’وہ (قطر) تین سال سے اس مسئلے پر (خاموش) بیٹھے تھے، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ اب فیصلہ آ گیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ قطر نے فوری طور پر ان (سابق) بحریہ کے اہلکاروں کو موت کی سزا سنادی۔ فیصلہ تین سال کے انتظار کے بعد آیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ بھی (قطر کی حکومت) شاید ہم سے اس بات پر متفق نہیں ہونا چاہتے کہ ہمارا (ہندوستان کا) موقف کیا ہے۔‘‘

مزید پڑھیں:Qatar Navy Personnel Death sentence بھارت، قطر پر دوہزار پندرہ کے معاہدے پر عمل آوری کا دباؤ بنائے گا

تجربہ کار سیاستدان نے مسئلہ فلسطین پر ہندوستانی حکومت کے رویہ پر مایوسی کا اظہار کیا: ’’ہم (ہندوستان) نے ہمیشہ فلسطین کے حق میں بات کی ہے۔ تاہم وزیراعظم کا دیا گیا بیان اس موقف کے بالکل بر عکس تھا۔ لیکن بعد میں وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ ہماری پالیسی وہی ہے۔‘‘ 7 اکتوبر کو، جس دن حماس نے اسرائیل پر حملہ کرکے جنگ کا آغاز کیا، وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا ’’ہندوستان اسرائیل کے ساتھ یکجہتی میں کھڑا ہے۔ اسرائیل میں دہشت گردانہ حملوں کی خبر سے گہرا صدمہ ہوا۔ ہمارے خیالات اور دعائیں معصوم متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ ہم اس مشکل گھڑی میں اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں،‘‘ مودی نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے ان باتوں کا اظہار کیا تھا۔

کچھ دن بعد، وزارت خارجہ کو ایک بیان جاری کرنا پڑا جس میں اس کے دیرینہ موقف کو دہرانا پڑا کہ ہندوستان ’’فلسطین کی ایک خودمختار اور قابل عمل ریاست‘‘ کے قیام کی حمایت کرتا ہے۔ تاہم، غزہ میں جنگ بندی کے حق میں اقوام متحدہ کی قرارداد سے پرہیز کرنا، جہاں اسرائیل نے تقریباً 3500 بچوں سمیت 8000 سے زائد افراد کو ہلاک کیا ہے، بی جے پی کے زیر اقتدار ہندوستان میں بدلتے ہوئے موقف کا ایک بڑا اشارہ تھا۔

فاروق عبداللہ کے مطابق ’’اقوام متحدہ کی اس قرارداد سے پرہیز کرنا اچھا نہیں تھا، جس میں فلسطین کے لیے انسانی امداد کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ بہت غلط تھا اور اس کی وجہ سے عرب ممالک میں ہمارے دوستوں کو اس سے بہت برا لگا ہوگا۔‘‘

ABOUT THE AUTHOR

...view details