انہوں نے کہا کہ ریاست میں تھرڈ فرنٹ کا وجود بے معنی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دفعہ 370 ہٹانے کے بعد ریاست کا درجہ چھیننا غلط ہے۔ دفعہ 35اے کی منسوخی کا سب سے زیادہ نقصان جموں کے ڈوگروں، گوجروں اور پہاڑیوں کو ہوگا۔
مظفر حسین بیگ نے کہا کہ ریاستی لیڈروں نے بھی جموں و کشمیر کے لوگوں سے دفعہ 370 پر دروغ گوئی سے کام لیا جبکہ 1962 میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ یہ دفعہ دائمی نہیں۔ بیگ نے کہا کہ خصوصی دفعہ میں ترمیم پر ترمیم کر کے اس کو گِھسا دیا گیا تھا اب تو یہ چھلکا ہی رہ گیا تھا۔ لیکن دفعہ کے تحت ریاست کے پاس چار ہی معاملات تھے باقی سب مرکزی سرکار کے پاس تھا۔
بیگ نے کہا کہ 2006 میں جو پارلیمانی وفد کشمیر آیا تو بد قسمتی سے کشمیر کے اُس وقت کے لیڈروں نے اپنے دروازے بند کر دئے اور ان سے کوئی بات نہ کی، شاید اسی وقت مرکزی سرکار نے اس دفعہ کو ختم کرنے کا تہیہ بنالیا تھا۔ مظفر بیگ نے کہا کہ خصوصی دفعہ کو ختم کرنے کے بعد کشمیر کے ان لیڈروں کی نظر بندی غیر جمہوری تھی جنہوں نے علیحدگی پسندوں اور شدت پسندوں کو بار بار للکارا اور بار بار آئین ہند کا حلف بھی لیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کئی بار بھارت ماتا کی جے بھی کی لیکن ایسے لیڈروں کو نظر بند کرنا غلطی ہے۔