سپرم کورٹ نے جونائل جسٹس بورڈ کی طرف سے کٹھوعہ ریپ کیس کے نابالغ مجرم کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی پر روک لگا دی ہے، اس نابالغ ملزم کو دوسرے ملزمان کے ساتھ کورٹ نے مجرم قرار دیا تھا۔
سپرم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد لوگوں کی جانب سے الگ الگ باتیں سامنے آنے لگیں۔
اس مسئلے پر ای ٹی وی بھارت سے بات چیت میں ایڈوکیٹ مہرخ سیدین نے کہا 'سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے، اس نابالغ مجرم کے خلاف وہاں ایک عرضی دائر کی گئی تھی، جس کے بعد کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا ہے'۔
انہوں نے مزید کہا 'لیکن جس طرح کا وحشیانہ جرم کیا گیا ہے، سپریم کورٹ کو اسی طریقہ سے اس پر فیصلہ سنانا چاہیے تھا، جو انسان اس طرح کی حرکت کر سکتا ہے وہ نابالغ نہیں ہوسکتا'۔
نابالغ کے خلاف کاروائی پر روک کی وجہ کیا ہے؟ یہ بھی پڑھیے
ایناڈو کے ایم ڈی کا مکانات کی تعمیر کا جائزہ
طوفان متاثرین کو راموجی گروپ کی جانب سے 121 گھروں کا تحفہ
انہوں نے کہا 'جس طرح سے کٹھوعہ عصمت دری اور قتل کیس سامنے آیا ہے یہ جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے لئے تشویشناک بات ہے، لہذا سپریم کورٹ کو قصوروں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔
واضح رہے کہ اس کیس کے ملزمان میں منصوبہ ساز سانجی رام، اس کا بیٹا وشال جنگوترا، سانجی رام کا بھتیجا (نابالغ ملزم)، نابالغ ملزم کا دوست پرویش کمار عرف منو، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتی افسران تلک راج اور آنند دتہ ملزم بنائے گئے ہیں۔
سانجی رام پر عصمت دری و قتل کی سازش رچنے، وشال، نابالغ ملزم، پرویش اور ایس پی او دیپک کھجوریہ پر عصمت دری و قتل اور ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتی افسران تلک راج و آنند دتہ پر جرم میں معاونت اور شواہد مٹانے کے الزامات تھے جس کے بعد کورٹ نے انہیں مجرم قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
انڈر 19 ورلڈ کپ: بنگلہ دیش کی تاریخی جیت، عالمی خطاب پر قبضہ
ڈرائنگ کے ذریعے این آر سی اور سی اے اے کی مخالفت