اردو

urdu

ETV Bharat / state

جموں ڈکلیریشن کے نام پر سیاست شروع، ریاستی درجہ کی مانگ

صوبہ جموں کے سینک کالونی علاقے میں تقریباً 20 سیاسی و سماجی تنطیموں کے علاوہ سول سوسائٹی کے اراکین، وکلاء، یوتھ ایسو سی ایشن کے ذمہ داران کے ساتھ طلبا بھی جمع ہوئے اور جموں کے لیے علحیدہ ریاست کے درجے کی مانگ کی۔

جموں کے لیے ریاستی درجہ دینے کی مانگ
جموں کے لیے ریاستی درجہ کی مانگ

By

Published : Oct 21, 2020, 10:51 PM IST

Updated : Oct 22, 2020, 12:54 AM IST

خطہ جموں کے سینک کالونی علاقے میں آج تقریباً 20 سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں نے گپکار ڈکلیریشن کی طرز پر جمع ہوکر جموں و کشمیر میں دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد نیز ریاست کو دو علیحدہ مرکزی علاقوں میں تقسیم کے بعد پیدا شدہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جسے انہوں نے 'جموں ڈکلیریشن' کا نام دیا ہے۔

جموں کے لیے ریاستی درجہ کی مانگ

اس اجلاس میں جموں و کشمیر نیشنل پینتھرز پارٹی کے چیئرمین ہرش دیو سنگھ، ڈوگرہ سبھا کے صدر گلچین سنگھ چھاڈک، شیو سینا کے صدر منیس سہانی، اِک جٹ جموں نامی تنظیم کے صدر ایڈوکیٹ انکر شرما، ڈوگرہ فرنٹ سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

جموں ڈکلیریشن کی صدارت کرنے والے پینتھرز پارٹی کے چیئرمین ہرش دیو سنگھ نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ 'کشمیر کے نام پر جموں کے عوام کے حقوق چھین لیے گئے ہیں اور جموں صوبہ کے عوام کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہیں جس کو مدنظر رکھ کر آج جموں کے سیاسی رہنماوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جموں کی تعمیر ترقی پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے اور لوگوں کی رائے جانی جائے'۔

یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر: 4 جی انٹرنیٹ پابندی میں 12 نومبر تک توسیع

انہوں نے کہا کہ جموں خطے کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے جس میں مرکزی سرکار کا اہم رول رہا ہے اور اب دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بھی جموں خطے کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے جس کے پیش نظر اب ہمیں بیدار ہونا ہوگا تاکہ ہمارے لوگوں کو بھی انصاف مل سکے'۔

انہوں نے کہا کہ 'بی جے پی کے دور میں جتنی ناانصافیاں ہوئی ہیں اتنی شاید آج تک کسی پارٹی کی حکومت میں نہیں ہوئی ہے'۔

سابق وزیر گلچین سنگھ چاڈک نے کہا کہ جموں و کشمیر ملک کی پرانی ڈوگرہ ریاست تھی جس کو ختم کردیا گیا۔ قربانیاں دے کر اس ریاست کی بنیاد ڈالی گئی تاہم اب اس خوبصورت ریاست کا درجہ ختم کردیا گیا جو کہ عوام کے ساتھ صریح ناانصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لداخ کو الگ درجہ ملا۔ کشمیر میں کچھ اور طرح کی بات کی جارہی ہے۔ جموں کو مسلسل 70 برسوں سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم نے آپس میں اس تعلق سے مشاورت کی ہے۔ اپنے الگ الگ سیاسی نظریات کو کنارہ کرکے ایک ہی میز پر بیٹھ کر گفتگو کی ہے۔ جس کے نتائج عنقریب سامنے آئیں گے۔

واضح رہے کہ نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ پر گپکار اعلامیہ کے دستخط کُنِندگان کی میٹنگ چند روز قبل ہی منعقد ہوئی تھی جس میں جموں و کشمیر ریاستی کانگریس کمیٹی کے صدر غلام احمد میر کو چھوڑ کر تمام دستخط کرنے والے سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔ اب اسی طرز پر جموں میں بھی نئی سیاسی صف بندی کی جا رہی ہے۔ جس کے اس خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ عنقریب ہی پتہ چل جائے گا۔

Last Updated : Oct 22, 2020, 12:54 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details