بھارت اور چین کے درمیان ایکچوول لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی کے درمیان متعدد بھارتی صارفین نے سوشل میڈیا پر چینی ساز و سامان اور سافٹ ويئرز کے بائیکاٹ کی مہم شروع کردی ہے۔
بھارت میں کہیں غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے تو کہیں غصہ و بدلے کی آگ پنپ رہی ہے اور سوشل میڈیا پر 'بائیکاٹ چین' کی آواز زور پکڑتی جا رہی ہے، جس کا اثر جموں میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
آج جموں پرونس پیپلز فورم نامی تنظیم نے جموں کے مختلف بازاروں میں 'بائیکاٹ چائنیز پروڈکٹس' کے پوسٹرز دوکانوں، گاڑیوں پر چسپاں کیے اور راہگیروں میں یہ پوسٹرز تقسیم بھی کئے۔
اس سے قبل جموں کے مختلف مقامات پر مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں نے چین کے خلاف احتجاج کیا اور چینی صدر کا پتلہ نذر آتش کیا۔
بائیکاٹ چائینا: جموں کے لوگوں کا ملا جُلا ردعمل ای ٹی وی بھارت نے چین کے خلاف بائیکاٹ کرنے کی پالسی کے تناظر میں لوگوں سے بات کی تو ان کا ملاجلا ردعمل سامنے آیا۔ محمد عامر نامی ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ 'ہم چین کے مصنوعات کا بائیکاٹ تو کردیں گے لیکن کیا چین کے ناپاک منصوبوں کو کیسے روک پائیں گے؟ انہوں نے کہا کہ عام لوگوں کے بائیکاٹ کرنے یا نہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ جب تک ملک کے وزیراعظم یا حکومت کی طرف سے اس سلسلہ میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا جاتا تب تک یہ بائیکاٹ ممکن نہیں ہے۔
جموں یونورسٹی کے کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر شجاع کاظمی نے کہا 'اگر لوگ چاہیں تو وہ بائیکاٹ کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ لیکن حکومت کو اس کے لئے تیار ہونا چاہیے۔ اور ملکی سطح پر صنعتوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں مختلف چیزیں بنائی جا سکے۔ انہوں نے کہا صرف کہنے سے بائیکاٹ کا اثر نہیں ہو گا۔'
جموں پرونس پپلز فورم کے چیئرمین انیل کمار نے کہا کہ 'بھارت کی عوام کو چاہیے کہ چین کا سامان نہ خریدیں اور نہ ہی اس کا استعمال کریں۔ تاکہ چین کو ہندوستان کی طرف سے کرارا جواب ملے۔'
قابل ذکر ہے کہ بھارت، چینی اشیاء کے لئے ایک وسیع تجارتی مرکز ہے اور ہندوستان کا اندرونی مارکیٹ چینی اشیاء کی برآمدات پر کافی منحصر ہے۔بتایا جاتا ہے کہ بھارت ہر برس جتنا امپورٹ (درامد) چین سے کرتا ہے اتنا کسی بھی ملک سے نہیں کرتا۔
بھارت سالانہ 317 ارب ملین امریکی ڈالر سے زائد کا چین کے ساتھ لین دین کرتا ہے۔ چین ہندوستان سے 3 فیصد سامان امپورٹ (درامد) کرتا ہے اور بھارت چین سے تقریباً 60 فیصد سامان برآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے بھارت میں تقریباً 6 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔