گزشتہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کو عملی جامہ پہنا یا گیا جس کے نتیجے میں امریکہ نے تحریری طور کہا کہ وہ آنے والے چودہ مہینوں میں افغانستان سے فوجی انخلاء کرے گا۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہوئے مذاکرات اور معاہدے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔
جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں گزشتہ دہائیوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی افغانستان میں جنگی صورتحال رہی تب کشمیر کے حالات قدرے پر امن رہے۔ تاہم غیر یقینی صورتحال برقرار رہی۔
اب اس نئی صورتحال کے بیچ پاکستان اور بھارت کے درمیان اور خاص کر کشمیر میں آنے والے وقت میں کیسے حالا ت رہیں گے اور کشمیر میں عسکریت پسندی کیا رخ اختیار کرے گی، تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ کافی دلچسپ صورتحال ہوگی جو آنے والے وقت میں ہی بخوبی واضح ہوگی۔
بھارتی تجزیہ نگار یہ کہتے رہے ہیں کہ افغانستان کے حالات میں ہمیشہ پاکستان کی دخل اندازی رہی ہے اور اس بار امریکہ اور طالبان کو امن مذاکرات پر آمادہ کرنے میں پاکستان کا کردار اہم رہا ہے۔
کشمیر میں بی بی سی کے نمائندے اور سینیئر صحافی ریاض مسرور نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ '1990ء سے یہ دیکھا گیا ہے کہ کشمیر اور افغانستان کے حالات اگرچہ متضاد رہے ہیں، یعنی کشمیر کے حالات تقریباً پر امن ہی رہے جب افغانستان میں جنگ کے حالات تھے لیکن جب طالبان سنہ 1990ء کے بعد افغانستان میں حکومت کی تو کشمیر کے حالات ابتر رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ باوجود اس کے کہ بھارت نے افغانستان کی تعمیر و ترقی میں کئی بلین ڈالر خرچ کیے حالیہ مذاکرات میں بھارت کا کردار کہیں دکھائی نہیں دیا اور اس بار اس سارے کھیل میں بھارت کہیں نظر ہی نہیں آیا۔