ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران زہرا کا کہنا تھا کہ "مجھے آج سائبر سیل پولیس نے پوچھ تاچھ کے لیے اسٹیشن بلایا ہے۔ اب دیکھتے ہیں وہاں کیا ہوتا ہے۔ میرے والدین کو ابھی بھی پوری طرح سے خبر نہیں ہے کی معاملہ کیا ہے۔ مجھے بھی کو گزشتہ روز اس تعلق سے اندازہ ہو گیا تھا جس کے بعد مجھے اعتراف کرکے ان کو پوری بات بتانی پڑی۔'
زہرا کی متعدد رپورٹٹز ملکی اور بین الاقوامی خبررساں اداروں میں شائع ہو چکی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ' میں نے اپنے بھائی کو یقین دلایا کہ کشمیر کے دیگر صحافی میرے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کو فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم میں خود ابھی یہ نہیں جانتی کی میرے ساتھ آگے کیا ہونے والا ہے؟ میرا قصورکیا ہے۔ میں گزشتہ چار برسوں سے وادی میں اپنا کام انجام دے رہی تھی اور لگاتار سماجی رابطے کی ویب سائٹز پر اپنا کام شیئر بھی کر رہی تھی- آج پہلی بار انتظامیہ کو میرے ذریعہ شیئر کی گئی ایک تصویر پر اعتراض ہوا۔'
ان پر عائد مقدمے پر تفصیلاً بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 18 اپریل کو مجھے سائبر پولیس اسٹیشن بلایا گیا تاہم میں نے کشمیر پریس کلب سے رجوع کیا جنہوں نے مجھے وہاں نہ جانے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس مسئلے کو انتظامیہ کے سامنے رکھیں گے۔ کچھ دیر بعد انفارمیشن ڈائیرکٹر سہرش اصغر نے بھی مجھے پولیس اسٹیشن نہ جانے کو کہا- ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی ایک خاتون ہیں اور پولیس اسٹیشن جانا کیسا ہے بخوبی جانتی ہیں۔ انہوں نے مجھے گھر پر رہنے کی ہدایت دی-"