اردو

urdu

ETV Bharat / state

'کشمیر میں عسکریت پسندوں کو بھی مارنا نہیں چاہتے ہیں'

سرینگر میں قائم فوج کی پندرہویں کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) لیفٹیننٹ جنرل بی ایس راجو نے کہا ہے کہ 'وادی کشمیر میں تعینات بھارتی مسلح افواج حد درجہ احتیاط سے کام لیتی ہے اور یہاں تک کہ عسکریت پسندوں کو بھی مارنا نہیں چاہتی ہے کیونکہ بقول ان کے 'کسی بھی جانی نقصان سے بہت دکھ ہوتا ہے'۔

'کشمیر میں عسکریت پسندوں کو بھی مارنا نہیں چاہتے ہیں'
'کشمیر میں عسکریت پسندوں کو بھی مارنا نہیں چاہتے ہیں'

By

Published : Jul 6, 2020, 5:55 PM IST

انہوں نے سوپور میں ایک عام شہری کی حالیہ ہلاکت کے لیے عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ مسجد سے فرار ہونے کے دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے کی گئی فائرنگ سے ہی مذکورہ شہری کی موت واقع ہوئی ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل بی ایس راجو نے کہا کہ وادی میں پچھلے چھ ماہ میں سیکورٹی فورسز نے 47 کامیاب آپریشن چلائے جن میں تقریباً 116 عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ انہوں نے حزب المجاہدین کے سابق آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو کی ہلاکت کو سیکورٹی فورسز کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسے طلسماتی عسکریت پسند تھے جو نئے نوجوانوں کو عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل کرانے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔

لیفٹیننٹ جنرل بی ایس راجو نے ایک نجی نیوز چینل کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو کے دوران کہا: 'جہاں تک مسلح افواج کا تعلق ہے ہم یہاں حد درجہ احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ ہم یہاں تک کہ عسکریت پسندوں کو بھی مارنا نہیں چاہتے ہیں۔ ہم ان سے خود سپردگی اختیار کرنے کی پیشکش کرتے ہیں'۔

انہوں نے کہا: 'جب کوئی نوجوان عسکریت پسندوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو اسے واپس لانے کے لئے ہم اس کے کنبے سے رابطہ قائم کرتے ہیں جس میں ہمیں بہت کم کامیابی ملتی ہے۔ ہر ایک آپریشن کے دوران عسکریت پسندوں کو خود سپردگی اختیار کرنے کی پیشکش کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں بالکل کامیابی نہیں ملتی ہے۔ ہم اس پر کام کررہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ہمیں اس میں بھی کامیابی ملے گی'۔

لیفٹیننٹ جنرل راجو نے حالیہ سوپور واقعہ کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا: 'کسی بھی جانی نقصان سے بہت دکھ ہوتا ہے۔ بجبہاڑہ میں ایک بچے اور سوپور میں ایک معمر شخص کی اموات توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے'۔

انہوں نے کہا: 'بجبہاڑہ اور سوپور دونوں مصروف ترین قصبے مانے جاتے ہیں۔ جب عسکریت پسند مصروف ترین علاقوں میں فائرنگ کرتے ہیں تو انہیں عام شہریوں کی ہلاکت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ہلاکتیں توجہ مبذول کریں گی۔ سوپور میں عسکریت پسندوں نے ایک مسجد کا سہارا لیا ہے۔ یہ ایک نیا رجحان ہے۔ دونوں واقعات میں سی آر پی ایف کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے'۔

بقول ان کے: 'سوپور میں ہم نے مسجد کے اندر اور باہر سے کارتوسوں کے 60 کھوکے پائے۔ بحیثیت ایک فوجی میں آپ کو کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے چلائی جانے والی دس گولیوں سے سی آر پی ایف کا جانی نقصان ہوا ہے جبکہ باقی قریب پچاس گولیاں وہاں سے فرار ہونے کے دوران چلائی گئی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک گولی عام شہری کو لگی ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا: 'اس طرح کی ہلاکتیں مکمل طور پر ٹالی جاسکتی ہیں۔ بدقسمتی سے شہری ہلاکت کا یہ واقعہ پیش آیا۔ بعد ازاں یہ واقعات پروپیگنڈے کا ہتھیار کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں'۔

پندرہویں کور کے جی او سی نے کہا کہ وادی میں پچھلے چھ ماہ میں چلائے جانے والے 47 کامیاب آپریشنز میں تقریباً 116 عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا: 'یہ آپریشنز آپسی تال میل کی وجہ سے ہی کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ ہم سب کا مقصد وادی میں امن کی بحالی ہے۔ ایک کامیاب انکوانٹر کے لئے 25 آپریشنز لانچ کرنے پڑتے ہیں'۔

لیفٹیننٹ جنرل راجو نے کہا کہ جہاں تک دراندازی کی بات ہے امسال اس میں کمی دیکھی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں مسلح آپریشنز کے دوران مارے جانے والے اکثر عسکریت پسندوں مقامی ہوتے ہیں۔

ان کا تاہم کہنا تھا: 'ہم اب تربیت یافتہ پاکستانی عسکریت پسندوں کے پیچھے بھی پڑ گئے ہیں۔ ہم عسکریت پسندوں کے بالائی زمین ورکرس کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جنگجوئوں کو لاجسٹک سمیت دیگر سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ تمام سیکورٹی ایجنسیوں کے درمیان قریبی تال میل کی وجہ سے ہی آپریشنز کامیاب ثابت ہورہے ہیں اور عام شہریوں یا سیکورٹی فورسز کا کم سے کم نقصان ہورہا ہے'۔

پندرہویں کور کے سربراہ نے ریاض نائیکو اور ان کی تنظیم حزب المجاہدین پر بات کرتے ہوئے کہا: 'ریاض نائیکو کی ہلاکت ایک اہم کامیابی تھی۔ وہ ایک پرانے عسکریت پسندوں تھے۔ وہ کرشمہ رکھتے تھے۔ نئے نوجوانوں کو عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل کرانے کا ہنر جانتے تھے۔ ان کی ہلاکت صرف حزب المجاہدین کے لئے ہی نہیں بلکہ دوسری جنگجو تنظیموں کے لئے بھی ایک نقصان تھا'۔

انہوں نے کہا: 'حزب المجاہدین ایک بنیادی عسکریت پسند تنظیم ہے۔ یہ وہ تنظیم ہے جو دوسری تنظیموں کو لاجسٹک سپورٹ اور خفیہ اطلاعات فراہم کرتی ہیں۔ ہم عسکریت پسندوں کی لیڈرشپ کو ہدف بنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ہمارا ماننا ہے کہ لیڈرشپ کے خاتمے سے تشدد میں بھی کمی آئے گی۔ اس سے ریکروٹمنٹ میں بھی کمی آئے گی جو کہ بہت اہم ہے'۔

لیفٹیننٹ جنرل راجو نے کہا کہ سرحد کی دوسری جانب لانچنگ پیڈز بھرے پڑے ہیں جہاں تین سو عسکریت پسند سرحد کے اس پار دراندازی کرنے کے انتظار میں ہیں۔

انہوں نے کہا: 'میرے فوجی بھی ان کا استقبال کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پاکستان ان دراندازی کے خواہاں افراد کے ذریعے یہاں تشدد کے واقعات انجام دینا چاہتا ہے'۔

لیفٹیننٹ جنرل نے کہا کہ لداخ میں پیدا شدہ صورتحال کے پیش نظر ہم یہاں کشمیر میں پاکستان کے ساتھ لگنے والی لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

تاہم بقول ان کے: 'جہاں تک مجھے معلوم ہے پاکستان نے ایل او سی پر تعینات فوجیوں کی تعداد بڑھائی ہے نہ وہاں نقل وحرکت میں کوئی بڑا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان نے اپنی دفاعی پوسچرنگ میں اضافہ کیا ہے جو کہ تنائو کے ماحول میں ایک معمول کا عمل ہے۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ پاکستان فی الوقت کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہم کسی بھی جوابی کارروائی کے لئے تیار ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا: 'فوج کا پندرہویں کور ایک مضبوط فورس ہے۔ ہمارے پاس ایل او سی اور میدانی علاقوں میں تعیناتی کے لئے علیحدہ علیحدہ فورس ہے۔ ہمیں ہر طرح کے حالات کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے۔ ہم کسی بھی مس ایڈونچر کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے'۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details