سرینگر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو سیل کر دیا گیا ہے ۔ وہیں سبھی رابطہ سڑکوں پر خاردار تاریں اور دوسری بندشیں کھڑی کی گئی ہیں۔ بغیر ایمرجنسی کے کسی کو بھی آگے جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے ۔
ادھردارالحکومت سرینگر کے علاوہ دیگر حساس مقامات پر کسی بھی امکانی گڑبڑی سے نمٹنے کے لیے پولیس اور فورسز کی بھاری تعیناتی کو عمل میں لایا گیا ہے۔ دفعہ 370اور35اے کے خاتمے کے بعد جموں وکشمیر میں تنظیم نو قانون کو عمل میں لایا جا چکا ہے وہیں کئی قوانین کی ترمیم بھی عمل میں لائی گئی ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے 5 اگست 2019 سے جموں و کشمیر خاص وادی کشمیر کے عوام نے بندشوں اور پابندیوں کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھا نہ تو وہ ترقی ہی کہیں دیکھنے کو ملی ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا اور نہ ہی روزگار کے نئے مواقع ہی پیدا کیے گئے ہیں۔
گزشتہ برس کی یاد ہوئی پھر سے تازہ پیر کی سہ پہر سے ہی سرینگر کی سڑکیں سنسان اور بازار ویران نظر آ رہے ہیں۔ انتظامیہ نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 5 اگست کے پیش نظر امن وقانون کی صورتحال بگاڑنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کیونکہ علحیدگی پسند اور پاکستانی حمایت یافتہ گروپ یوم سیاہ منانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اور اس بات کو بھی خارج نہیں کیا جاسکتا ہے کہ عوامی املاک وجائیداد کو نقصان پہنچایا سکتا ہے۔
اس لئے کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔ مقامی نوجوانوں کو کہنا ہے اب اس طرح کی بندشوں اور پابندیوں کی انہیں عادت سی ہو گئی ہے، کشمیریوں کے لیے یہ اب کوئی نہیں بات نہیں ہے۔
دوسری جانب جموں و کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں مسلسل ایک سال سے جمود کا شکار ہیں۔ پی ڈی، نیشنل کانفرنس اور کانگرنس نے بھی 5 اگست کو یوم ساہ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان پارٹیوں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت ختم کرنے کا بی جے پی والی مرکزی حکومت کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے جو کشمیریوں کو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔
واضح رہے سرینگر میں دو دنوں تک کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا جارہا ہے۔