ان ایام میں زندگی کا ہرشعبہ بندشوں اور غیر اعلانیہ ہڑتال سے بری طرح متاثر رہا خاص طور سے انٹرنیٹ پر عائد پابندی سے تاجر، طلبا اور صحافیوں کو گونا گوں مشکلات کا سامنا ہے۔ وہیں 5 اگست سے کشمیر میں تمام طرح کی سیاسی سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔
کشمیر کی معشیت پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ 5 اگست کے بعد کشمیر کی معیشت کو 15،000 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے ۔
بی جے پی حکومت کی جانب سے 5 اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ منسوخ کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو میں تقسیم کرنے کے فیصلے سے قبل ہی گورنر انتظامیہ کی جانب سے 4 اگست کی رات کو ہی وادی میں سخت ترین بندشیں نافذ کی گئیں اور ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے سرکردہ مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں کو نظر بند یا قید کیا گیا۔
سیاسی رہنماؤں میں جموں و کشمیر کے تین سابق وزراء اعلیٰ بشمول نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، انکے صاحبزادے عمر عبداللہ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی ہنوز قید میں ہیں۔
جموں و کشمیر کے سرکردہ مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں کو نظر بند یا قید کیا گیاہے۔
گرچہ حکومت نے چند سیاسی رہنما بشمول پی ڈی پی کے دلاور میر، سابق وزراء غلام حسن میر اور حکیم محمد یاسین کو رہا کیا ہے، تاہم ابھی تک وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنے ہیں۔
مین اسٹریم سیاسی لیڈران کے علاوہ سرکار نے5161 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی ہے۔ ان گرفتاروں کی تفصیل فراہم کرتے ہوئے وزارت داخلہ کے جونیر منسٹر جی کے ریڈی نے پارلیمنٹ میں کہا کہ محروس لوگوں میں سنگ باز، شر پسندعناصر، عسکریت پسندوں کے حمایتی، علیحدگی پسند اور مین اسٹریم سیاسی کارکن شامل ہیں۔
انکے مطابق فی الوقت 609 افراد حراست میں ہیں جن میں 218 سنگ باز شامل ہیں اسکے علاوہ جموں و کشمیر سے باہر 234 کشمیری افراد مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ ان تمام قیدیوں کی رہائی کے متعلق سرکار ابھی تک خاموش ہے۔
گرچہ حکومت کی جانب سے بندشیں تو ہٹا دی گئی ہے لیکن سیکورٹی فورسز سڑکوں اور بازاروں میں آج بھی بدستور تعینات ہیں۔
گزشتہ چار مہینوں میں تعلیمی سرگرمیاں صرف امتحانات تک ہی محدود رہیں۔ تجارت کے علاوہ اگر کوئی شعبہ بری طرح متاثر ہوا تو وہ طلاب ہی ہیں۔
اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ حاضر رہتے ہیں لیکن طلاب ان اداروں سے غیر حاضر ہے۔ سرینگر کے سوول لاینز میں چند اسکول کھول دیے گئے ہیں لیکن بچے بغیر یونیفار کے ان اسکولوں میں حاضری دیتے ہیں۔
سرینگر کے شہر خاص میں واقع تاریخی جامع مسجدکا دروازہ ان چار ماہ میں انتظامیہ نے بند کردیا اور وہاں جمعہ سمیت پنجگانہ نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ وہیں سرکار کی جانب سے پہلی بار عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر بڑے عوامی اجتماع کو روکنے کے لئے درگاہ حضرت بل میں بندشیں نافذ کی گئیں۔