رام مادھو نے کہا کہ ' میں ذاتی طور پر اس کے حق میں ہوں، اب جب یہ فیصلہ لیا گیا ہے تو تقریبا 104 روز گزر چکے ہیں وادی میں کسی طرح کی سیاسی سرگرمی کا آغاز ہونا ہے۔میں اپنی پارٹی میں بھی وادی میں سیاسی سرگرمیاں شروع کرنےکے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ، ہم اس کے بارے میں کچھ کرنے کے قابل ہوں گے۔'
' جموں و کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو' انہوں نے کہا کہ' جموں میں سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوگئی ہیں۔ کشمیر میں سیاسی رہنماؤں زیر حراست رکھنے کے حکومتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے مادھو نے کہا کہ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا ہے کہ جو قائدین اس وقت احتیاطی تحویل میں ہیں وہ رہا ہونے کے بعد احتجاج کی قیادت کریں گے ۔'
مادھو نے کہا کہ 'کوئی نہیں کہتا ہے کہ احتجاج نہیں ہونا چاہئے یہ جمہوریت ہے، احتجاج ہو گا لیکن ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ مظاہرے جمہوری اور پرامن طریقے سے ہو۔ '
قابل ذکر ہے کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل جموں و کشمیر میں ہند نواز سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنماؤں، جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کو نظر بند رکھا گیا۔عمرعبداللہ کے والد اور این سی کے سربراہ فاروق عبد اللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 17 ستمبر سے زیر حراست رکھا گیا ہے۔
مادھو نے دعوی کیا کہ دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے بعد جموں وکشمیر میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ 'جب بھی پہلا موقع آئے گا اس طرح کی نئی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوں گی۔ میں بہت خواہش مند ہوں کہ موقع جلد سے جلد آنا چاہئے۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں نے پہلے بھی یہ کہا ہے، کہ کہ وہاں لوگوں کے لیے موقع کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن جو توقع کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ بھارتی آئین کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ اس کے تحت ہی کسی بھی طرح کا سیاسی مطالبہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ لہذا کی جموں و کشمیر میں دوبارہ سیاسی سرگرمیاں شروع ہونی چاہئے۔ یہ کتنا جلدی ہوسکتا ہے جموں و کشمیر انتظامیہ اور مرکزی حکومت کو مل کر یہ فیصلہ کرنا ہے۔