اطلاعات کے مطابق مولانا نور احمد ترالی کا جنازہ دارالعلوم نور الاسلام کے احاطے میں ادا کیا گیا جس کی پیشوائی وادی کے معروف روحانی بزرگ اور دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کے مہتمم مولانا رحمت اللہ نے کی۔
مولانا نور احمد ترالی نم آنکھوں سے سپرد خاک موت کی خبر کے بعد پورے ترال علاقے میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی اور شدید سردی کے باوجود ہزاروں عقیدت مند مولانا کے آخری دیدار کے لیے صبح سے ہی قطاروں میں کھڑے تھے جبکہ اس موقع پر رقت آمیز مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔
مولانا نور احمد ترالی کے آخری سفر میں شامل ہونے کے لیے نہ صرف مسلمان بلکہ سکھ اور پنڈت برادری کے افراد بھی پیش پیش رہے۔
ساڑھے گیارہ بجے مولانا کی نماز جنازہ ادا کی گئی جسکے بعد انکی میت کو انکے آبائی قبرستان گوپھہ بل میں پورے عقیدت و احترام کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔
ای ٹی وی بھارت اردو کے مدیر خورشید وانی نے مولانا ترالی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”انکا فن خطابت مؤثر اور یکتا تھا”۔
مولوی حافظ جاوید احمد نے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے پوئے کہا کہ 'انہوں نے ترال علاقے میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ تعلیم کو آگے بڑھانے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا'۔
مولانا نور احمد ترالی کے ادارے میں کام کرنے والے ایک اور سینئر استاد مفتی محمد عباس قاسمی نے بتایا کہ' مولانا کی وفات سے جو نقصان ہوا ہے اسکی بھرپائی مشکل ہے'۔
وہیں مولانا نور احمد ترالی کی علاقے میں سکھ مسلم بھائی چارے کے لیے ایک تحریک سے کم نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ آج سکھ لوگ بھی اس عظیم اسکالر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے پیش پیش نظر آئے۔
منگہامہ ترال سے تعلق رکھنے والے ایک سکھ شہری اجل سنگھ نے بتایا کہ مولانا نور احمد ترالی سکھوں کے غمخوار تھے اور مرحوم نے جو رول علاقے کی مذہبی ہم آہنگی کو بنائے رکھنے کے لیے ادا کیا ہے وہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
گجر طبقے سے وابستہ ماسٹر ابراہیم خاکسار کا کہنا تھا کہ مولانا مرحوم نے دینی تعلیم وتربیت کے لیے گجر برادری کے تیئں جو کارنامے انجام دئے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مولانا نور احمد ترالی کی نماز جنازہ میں لوگوں کا جم غفیر
الغرض مولانا نور احمد ترالی جہاں ایک مذہبی عالم تھے وہیں انھوں نے زمینی سطح پر ایک اصلاح کار کی حیثیت سے جگہ بنانے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی ہے۔
گویا بقول شاعر'بچھڑا کہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی، ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا'۔