ماہرین کا ماننا ہے کہ سال 2017 میں رونما ہوئے ڈوکلام بحران کے بعد طرفین کے درمیان یہ سب سے بڑے فوجی ٹکراؤ کی صورتحال بن سکتی ہے۔
اعلیٰ فوجی ذرائع کے مطابق بھارت نے گلوان وادی اور پیونگ یانگ میں فوج کی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے جہاں بتایا جاتا ہے کہ چین نے بھی دو سے ڈھائی ہزار تک کی تعداد میں فوجی اہلکاروں کو تعینات کرنے کے علاوہ عارضی انفراسٹرکچر بھی بڑھانا شروع کیا ہے۔
ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار نے ایک نیوز چینل کو بتایا ہے کہ علاقے میں بھارت کی فوجی تعیناتی دشمن کی فوجی تعیناتی سے زیادہ بہتر ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق 5 مئی کو پانچ ہزار چینی فوجی اہلکار گلوان وادی میں دو سے تین کلو میٹر اندر بھارتی حدود میں داخل ہوئے اور بعد ازاں ایک ہفتہ کے بعد 12 مئی کو اتنی ہی تعداد میں چینی فوجی اہلکار پیونگ یانگ جھیل سیکٹر میں وارد ہوئے۔ چینی فوجیوں کی دراندازی کا یہ سلسلہ جاری رہا اور انہوں نے جنوبی لداخ کے ڈمچوک اور شمالی سکم کے ناکولا علاقوں میں بھی دراندازی کی ہے۔
رپورٹوں میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پیونگ یانگ جھیل علاقے میں 12 اور13 مئی کو ہزاروں چینی فوجیوں نے فنگر 8 اور فنگر 4 کے درمیان متنازعہ علاقے پر قبضہ جمایا اور 18 مئی تک انہوں نے فنگر ہائٹ کو اپنے مکمل قبضے میں لیا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق پیونگ یانگ جھیل علاقے میں پانچ مئی کو ہندوستان اور چینی فوجی اہلکاروں کے درمیان لاٹھیوں اور سلاخوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں اور سنگ باری بھی جس میں طرفین کے فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق اس وقت چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے قریب 10 ہزار اہلکار بھارتی علاقوں میں موجود ہیں۔ مذاکراتی عمل منجمد ہے اور چین، ہندوستان کی طرف سے فلیگ میٹنگیں منعقد کرنے کی پیشکشوں کو رد کررہا ہے۔