جموں و کشمیر میں ترکوٹہ کی پہاڑی پر واقع ماتا ویشنوی دیوی مندر کے درشن کے لیے ہر برس بڑی تعداد میں عقیدت مند آتے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کا روزگار چلتا ہے۔
جموں اور کٹرا کے ہوٹلز کے علاوہ بڑی تعداد میں ٹٹو، خچر، پالکی، ٹیکسی اور آٹو ڈرائیورز کا ان سیاحوں کی اجرت سے گزر بسر ہوتا ہے۔
کورونا وبا سے قبل یہاں لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند ماتا ویشنوی دیوی کے درشن کے لیے آتے تھے۔18 مارچ کو یاترا پر روک کے بعد 5 مہینے تک عقیدت مندوں کے آنے پر پابندی عائد رہی۔16 اگست کو کورونا گائیڈ لائن کے مطابق محدود تعداد میں اجازت دی گئی، کل 2000 عقیدت مندوں کو اجازت دی گئی، پھر اس میں اضافہ کر کے اس کی تعداد 5000 اور نوراتری پر 7000 کردی گئی۔
یکم نومبر سے عقیدت مندوں کی تعداد بڑھا کر 15000 کردی گئی۔ یاترا کو دوبارہ شروع کرنے سے یاترا کے بیس کیمپ والا قصبہ کٹرا میں معاشی سرگرمیاں اب تھوڑی تھوڑی شروع ہوگئی ہیں، لیکن مقامی دکانداروں اور دیگر افراد کا کہنا ہے کہ صورت حال پوری طرح بہتر ہونے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ وہ اب بھی مالی تنگی کا سامنا کر رہے ہیں۔
کٹرا شہر میں ڈرائی فروٹز اور پرساد کی دکان لگانے والے 45 سالہ کپل گپتا نے بتایا کہ جموں و کشمیر کے باہر سے آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد نہ کے برابر ہے، ایک وقت تھا جب ہمارا اچھا کاروبار ہوتا تھا، کمائی اچھی ہوتی تھی، لیکن چیزیں اب ویسی نہیں ہیں، ہمارے کاروبار کا انحصار دوسری ریاستوں سے آنے والوں پر تھا۔ لیکن گزشتہ کئی مہینوں سے ہماری کمائی صفر ہوگئی ہے، ہم پہلے کی بچت سے گھر چلا رہے ہیں، لیکن زیادہ وقت تک ہم اس طرح سے گزارا نہیں کرسکتے۔
یاترا سے واپسی پر زائرین اخروٹ جیسے پرساد کٹرا اور جموں سے ہی خریدتے تھے۔
ڈرائی فروٹ دکاندار گوتم نے کہا کہ مارچ میں ہمارا مال بھرا ہوا تھا، اور ہم بہتر کاروبار کی امید کئے ہوئے تھے، لیکن کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمارا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ کاروباریوں کی حکومت کوئی مدد کریں۔