سرینگر(جموں و کشمیر): آج ہی کے دن پانچ اگست 2019 میں مرکزی حکومت نے نا صرف دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کو خصوصی حثیت سے محروم کر نے کا اعلان کیا بلکہ اس ریاست کو دو دی بلکہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام یوٹی یعنی دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے جموں و کشمیر میں دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے کے فیصلے کو چار برس مکمل ہو چکے ہیں۔اس فیصلے کے بعد وادی میں تبدیلیوں اور موجودہ صورتحال کے بارے میں واضح طور پر کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا ہے۔جب خصوصی دفعات کو ختم کرنے کا فیصلہ لیا گیا تھا اس وقت خطے میں کئی ماہ تک مواصلاتی نظام کو بند رکھا بھی گیا تھا۔اس کی وجہ سے کشمیری عوام کا بیرونی دنیا سے رابطہ منتقع ہو چکے تھے۔
اس کے بعد جموں و کشمیر کے تجربہ کار سیاسی رہنماوں تینوں سابق وزراء اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی زیر حراست تھے۔جموں و کشمیر کے دیگر سیاسی رہنماوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔چند سیاسی رہنماوں کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا۔
جہاں ایک طرف سپریم کورٹ نے تقریباً چار برس بعد دفعہ 370 کی منسوخی کے حوالے سے سماعت کا آغاز کیا وہیں دوسری جانب حکمران پار ٹی بھارتیہ جانتا پارٹی آج وادی سے خصوصی دفعات کے ختم کئے جانے کے چار برس مکمل ہونے پر جشن منانے میں مصروف ہے ۔