نئی دہلی: جمعہ کے روز کشمیری علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک اپنے ایک کیس میں بذات خود جرح کرنے کے لیے کمرہ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کی دو ججوں کی بنچ جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس دیپانکر دتہ نے عدالت میں ان کی موجودگی دیکھ کر حیران رہ گئے اور کہا کہ ہماری طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں جاری ہوا ہے کہ وہ ذاتی طور پر حاضر ہوں۔ وہیں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ یاسین ملک کو عدالت میں لانا ایک سنگین سیکورٹی مسئلہ ہے۔ واضح رہے کہ یاسین ملک ٹیرر فنڈنگ کیس میں تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے کہ انہیں مستقبل میں اس طرح جیل سے باہر نہ لایا جائے گا۔ مہتا نے مزید کہا کہ دفعہ 268 کے حکم کے پیش نظر وہ جیل سے باہر نہیں آسکتے ہیں۔ کوئی بھی فریق جو بغیر وکیل کے ذاتی طور پر پیش ہونا چاہتا ہے تو اسے پہلے اجازت لینی ہوگی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی کوئی اجازت نہیں مانگی گئی اور نہ ہی دی گئی ہے۔
جسٹس کانت نے کہا کہ ہماری طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں ہے کہ وہ ذاتی طور پر پیش ہوں، مہتا نے کہا کہ 'یہ ہماری طرف سے ایک غلطی ہے، لیکن چونکہ آپ اس معاملے کو نہیں اٹھا رہے ہیں، اس لیے میں اس پر بات نہیں کر رہا ہوں۔ وہیں جسٹس دتہ نے کیس کی سماعت سے معذرت کر لی۔ سالیسٹر جنرل مہتا نے اصرار کیا کہ اسے جیل سے باہر نہیں لایا جا سکتا۔ اس پر جسٹس کانت نے کہا کہ ہم نے صرف ایڈیشنل سیشن جج کے ان احکامات پر روک لگانے کے لیے حکم امتناعی جاری کیا اور کبھی ایسا کوئی حکم نہیں دیا کہ وہ ذاتی طور پر حاضر ہوں اور مجھے یاد ہے کہ ہم نے زبانی طور پر بھی نہیں کہا۔