رام مادھو نے کشمیر کی تاریخ کے حوالے سے کیا کہا؟ - کشمیر کی تاریخ
بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سیکریٹری رام مادھو نے آج پہلی بار وادی کے کسی روزنامہ کے ایک کالم میں اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں۔ اپنے اس کالم کے ذریعے انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ گپکار اعلامیہ کے تحت جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتیں لوگوں کو جو خواب دکھا رہے ہیں وہ کبھی بھی تعبیر نہیں ہو سکتے۔
اپنے 1071 الفاظ اور گیارہ پیراگراف پر مشتمل مضمون میں مادھو نے کشمیر کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ "جس طریقے سے سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کے دور میں دفعہ 370 میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس نہیں لیا جا سکتا۔ ٹھیک اسی طرح 5 اگست کا فیصلہ بھی واپس نہیں دیا جائے گا۔ گپکار اعلامیہ کے تحت وادی کی سیاسی جماعتیں عوام کے جذبات کے ساتھ کھیل کر انہیں اپنے سیاسی منصوبوں کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔"
تاریخ کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ "کشمیر کے اپنے بادشاہ یوسف شاہ چک کے ہاتھوں مغل سلطنت کو شکست کا سامنا کرنے کے بعد اکبر نے چک کے ساتھ دھوکہ کیا۔ چک کو دہلی مذاکرات کے لیے بلایا گیا۔ تاہم انہیں قید کر دیا گیا اور بعد میں جلاوطن کر دیا گیا۔ بہار کے ناول ندا علاقے میں ابھی بھی چک کا مزار موجود ہے۔ مغلوں کے بعد انگریز اور اس کے بعد ڈوگروں نے کشمیر پر راج کیا۔"
انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'سنہ 1931 میں شیخ عبداللہ اور میر واعظ یوسف شاہ نے مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی، تاہم سنہ 1938 میں عبداللہ نے مسلم کانفرنس چھوڑ کر نیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی۔ بعد میں اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ شیخ عبداللہ کو یہ اندیشہ ہو گیا تھا کہ میر واعظ اور کچھ دیگر جموں کے مسلم لیڈران مہاراجہ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ عبداللہ نے نئی جماعت کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا جہاں یہ قرارداد پاس کی گئی کہ " نیشنل کانفرنس میں نسل، ذات اور مذہب کی بنیاد پر کوئی دباؤ نہیں ہوگا اور تمام طبقوں سے وابستہ افراد کو پارٹی کا حصہ بننے کی اجازت ہوگی۔"
اس کے مزید ان کا دعویٰ ہے کہ "سنہ 1945 میں نیشنل کانفرنس کا عالمی اجلاس سوپور میں منعقد ہوا۔ اسی دوران بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو دریا کے راستے سے ریلی میں لے جایا گیا جہاں مسلم کانفرنس سے وابستہ افراد نے ان لیڈران پر پتھر بازی شروع کر دی۔ نہرو نیشنل کانفرنس سے اتنے متاثر ہو چکے تھے کہ انہوں نے کشمیری پنڈتوں کو بھی نیشنل کانفرنس میں شمولیت کرنے کے لیے زور دیا۔ "
فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنے مضمون میں دعویٰ کیا "سنہ 1996 میں جب فاروق عبداللہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلی بنے تو انہوں نے اشوک جیٹلی کو اپنا چیف سیکرٹری مقرر کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے بعد ان کے بیٹے عمر عبداللہ نے بھی اپنے والد کی طرح ہندو چیف سیکرٹری اور آئی جی پی یو کی تعیناتی عمل میں لائی۔ "
گپکار اعلامیہ کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ "آج یہی لیڈران اپنی تاریخ بھول کر سیاست کے لیے کٹر اسلام کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ جہاں عسکریت پسند اور ترکی جیسے ملک ان نئے خیالات میں اپنی جگہ تلاش کر رہے ہیں۔ وہیں وادی کے لیڈران کی جانب سے عوام کو گمراہ کرنا سب سے غلط بات ہے۔"
ان کا مزید دعویٰ ہے کہ "جب 1990 میں کٹر اسلام عروج پر تھا۔ وادی میں تب پنڈتوں کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا لیکن یہاں کے مسلمانوں نے بھی مشکلات کا سامنا کیا۔ عسکریت پسند مست گل نے چرار شریف زیارت کو جلا ڈالا اور فاروق عبداللہ کو لندن کا رخ کرنا پڑا۔ "
اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہوئی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ "جب شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی سے دفعہ 370 میں ہوئی تبدیلیوں کو واپس بحال کرنے کی بات کی تو گاندھی نے صاف الفاظ میں یہ کہا کہ "گھڑی کی سوئیاں واپس نہیں لی جا سکتی۔" وہی بات آج بھی ہے۔ فاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے بخوبی جانتے ہیں کہ گھڑی کی سوئیاں واپس نہیں لائی جاسکتی تب بھی وہ لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور گمراہ بھی۔"