جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمرعبداللہ نے انتظامیہ کی اس فیصلے کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ' اس سے عوام کی الجھنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔'
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ' میں سمجھ سکتا ہوں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے سرکاری دفاتر سرینگر منتقل نہیں کیے جا سکتے۔ تاہم یہ سمجھ نہیں آتا کہ سرینگر کے ملازم اپنے سینیئر افسران اور معاملات دستاویز کے بنا کام کیسے کر سکتے ہیں۔'ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ سرینگر کے ملازموں کو وادی آنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے تو جموں کے ملازموں کو مشکلات کیوں ہو سکتی ہیں؟ اگر معاملات کی دستاویز کو سرینگر لے جایا جائے گا تو جموں کے ملازم کیا کام کریں گے۔' انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ افسران جو جموں و کشمیر کے باشندے نہیں ہے وہ وادی کیوں نہیں آرہے۔ کیا وجہ ہے کہ وہ جموں میں ہیں قیام کیے ہوئے ہیں؟ 'عمرعبداللہ کے علاوہ وادی کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جہاں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے مفاد میں نہیں ہیں وہی جموں کشمیر اپنی پارٹی کا کہنا ہے کہ "کورونا وائرس کے چلتے ہیں اقدامات اٹھانا خوش آئند قدم ہے۔ تاہم اس فیصلے کو نافذ کرنے سے پہلے انتظامیہ کو ایک بار پھر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔"جموں و کشمیر عدالت عالیہ نے بھی انتظامیہ سے اس تعلق سے تفصیلات طلب کی ہے۔