مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی 100 سے زائد شخصیات نے پولیٹزر بورڈ کو ایک خط لکھا ہے جس میں دو کشمیری صحافیوں کو دیئے جانے والے ایوارڈ پر اعتراض کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جیوری جھوٹ، حقائق کی غلط بیانی اور علیحدگی کی صحافت کو فروغ دے رہی ہے۔
دراصل مذکرہ فوٹو جرنلسٹس کو سال 2019 اگست کے بعد وادی کشمیر میں پیدا شدہ مخدوش صورتحال کی عکس بندی کرنے پر یہ اعزاز ملا جب کشمیر میں نہ صرف سخت ترین کرفیو نافذ تھا بلکہ حکومت کے جانب سے تمام تر مواصلاتی خدمات پر تاریخ ساز و ریکارڈ پابندی عائد کی گئی تھی۔
پولیٹزر پرائز 2020 کے منتظم، بورڈ اور جیوری کو لکھے گئے خط میں، انہوں نے مختار خان اور ڈار یاسین کو دیئے گئے انعام پر اعتراض اٹھایا اور یہ دعویٰ کیا کہ دونوں نے اپنی تصاویر کے کپیشن میں ' بھارت کے زیر انتظام کشمیر' استعمال کیا ہے۔
اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ پولیٹزر پرائز کا مقصد آزاد صحافت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ، خط میں لکھا گیا ہے کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈار یاسین اور مختار خان جیسے فوٹوگرافرز کو انعام دیتے ہوئے آپ صحافت اور جھوٹ کی فوٹو گرافی، حقائق کی غلط بیانی اور علیحدگی پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس خط میں چھنی آنند کا نام شامل نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اس کی تصویر سے بھارت بدنام نہیں ہوتا ہے اور دیگر دو فوٹو جرنلسٹز کے برعکس انہوں نے ' بھارت کے زیر انتظام کشمیر' استعمال نہیں کیا ہے۔