خطہ میں لوگ گذشتہ کئی سالوں سے بیشتر زراعت والی زمین کو باغبانی میں تبدیل کرکے سیب کے باغات تیار کئے ہیں۔
بیشتر زمین داروں نے اپنے کھیتوں میں دھان کی پنیری لگانے کا کام غیر ریاستی مزدوروں کو سونپ دیا تھا۔اور زیادہ تر مقامات پر بیرونی ریاستوں کے مزدور ہی دھان کی پنیری لگانے سے شالی کاٹنے تک سارے امور انجام دیا کرتے تھے۔
رواں برس کورونا وائرس کی دوسری لہر اور انتظامیہ کی جانب سے نافذ کئے گئے لاک ڈاون کے سبب زراعت سے متعلق تمام تر سرگرمیاں زمیندار اور کاشتکار خود انجام دے رہے ہیں۔
کھیتوں میں کاشتکار کام کر رہے ہیں خطہ کے کھیتوں میں ان دنوں کشمیری خواتین کی روایتی موسیقی ( ون وُن) سُن کر دل و دماغ کو تازگی کا احساس ہوتاہے۔ جسے دیکھ کر پرانے دنوں کی یادیں تازہ ہونے کے ساتھ ساتھ اکثر کسانوں کے چہرے کھلے کھلے نظر آ رہے ہیں۔ کیونکہ اپنے ہاتھوں سے کھیتوں میں کام کرنے کا ایک الگ ہی مزہ ہوتا ہے۔
اس حوالے سے جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے کسانوں کے ساتھ بات کی تو انہوں نے کہا کہ پرانے وقت میں وادی کے کھیتوں میں چاروں طرف رونقیں ہوا کرتی تھی۔ لوگ کھیتی میں تن دہی اور خوش اسلوبی سے کام کرتے تھے۔
کشمیری خواتین اس میں اپنی میٹھی اور سُریلی آواز سے گنگنا کر اس میں چار چاند لگا دیتی تھی، جبکہ کسانوں کو کھیت میں کسرت کے مواقع بھی ملتے تھے ۔ جس سے کسان کا جسم تندرست رہتا تھا۔
انہوں کہا کہ جدید دور میں کشمیر کے لوگ آرام طلب ہو گئے ہیں۔ اب وہ یہ کام بیرون ریاستوں سے آنے والوں مزدورں سے کراتے ہیں۔
جس سے یہاں کے مزدورں کی روزی روٹی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔جبکہ کورونا کی دوسری لہر کے سبب بیرونی ریاستوں کے مزدور کشمیر نہیں آپائے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج کل کشمیر کی وہ پرانی روایت پھر سے زندہ ہو گئی۔
اس حوالے سے مزدورں کا کہنا ہے کہ بیرونی ریاستوں سے آنے والے مزدوروں نے ان کی روزی روٹی چھین لی ہے۔ جس کی وجہ سے کشمیری مزدور بے روزگار ہو گئے تھے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اس پرانی روایت کو برقرار رکھنے اور خود کوتندرست رکھنے کے لئے اب کھتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ وادی کی یہ پرانی روایت زندہ رہے۔