چھ ماہ قبل زور دار آندھی طوفان آنے کے سبب اس اسکول کی ٹین کی چھت اُڑ گئی تھی تب سے لے کر آج تک کسی نے بھی اسکول اور اسکول میں زیر تعلیم طلبأ و طالبات کی خبر نہیں لی۔
زیر تعلیم طلباء وطالبات سخت پریشانیوں سے دوچار اس معاملے میں نہ صرف محکمۂ تعلیم بلکہ یہاں کے عوامی نمائندے بھی خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
اس اسکول میں زیر تعلیم پانچویں جماعت کے طالب علم محمد سجاد نے بتایا کہ چھ ماہ قبل اس اسکول کا ٹین اُڑگیا ہے یہاں صرف ایک کمرے کا ایک کونہ بچا ہے جس میں ہم پانچ جماعتوں کے تقریباً چالیس طلبأ و طالبات ایک ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
اسکول کے ایک استاذ کا کہنا ہے کہ منڈی تحصیل برفانی علاقہ ہے اسی وجہ سے یہاں بارشوں کا سلسلہ بند ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے جس کی وجہ سے اسکول کے کمروں میں پانی داخل ہوجاتا ہے۔
گورنمنٹ پرائمری اسکول باغاں موجودہ حالت کے سبب اساتذہ کو طلبأ وطالبات کی تعلیمی سرگرمیاں کافی متاثر ہورہی ہیں۔
پہلے اس اسکول میں دو کمرے تھے لیکن طوفان کی زد میں آنے کے بعد اب صرف مجبوراً ایک کھلے کمرے میں بچوں کو تعلیم دینی پڑرہی ہے۔
اسکول کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ' یہاں بیٹھنے لائق جگہ نہیں ہے بچوں کو مڈے میل بنانے کے لیے باورچی نہیں حتی کہ پینے کا پانی تک انتطامیہ نے اسکول کو فراہم نہیں کیا ہے۔
اساتذہ کی جانب سے ضلع پونچھ کے سی ای او کو متعدد بار آگاہ کیا لیکن انھوں نے اسکول کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
یوں تو سرکاری اسکولوں کے تعلق سے حکومت بڑے بڑے دعوے کرتی ہے لیکن اگر پرائمری سکول باغاں کی بات کی جائے تو یہاں ان کے دعوے کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔