بی جے پی نے جموں و کشمیر میں سنہ 2014 میں پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کر مخلوط حکومت بنائی لیکن یہ حکومت پہلی ہی روز سے متنازعہ رہی۔
سنہ 2015 کے اواخر میں سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد کشمیر میں تین ماہ تک سیاسی تعطل رہا کیونکہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی اپنے والد کے انتقال کے بعد بی جے پی کے ساتھ دوبارہ حکومت بنانے کیلئے چند شرائط پر کام کرنا چاہتی تھیں جو بی جے پی کو نامنظور تھا-تین ماہ بعد محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی لیکن 2016 میں عسکریت پسند برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں عوامی احتجاج پھوٹ پڑے جن کو قابو میں کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے مبینہ طور پر سخت کاروائی کی جس میں ایک سو سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے-
جس سے پی ڈی پی کی عوامی و سیاسی ساکھ ختم ہوگئی۔2017 میں بی جے پی نے پی ڈی پی کو حمایت واپس لی اور جموں و کشمیر میں گورنر راج نافذ کیا جس سے کشمیر میں سیاسی بحران پیدا ہوا۔لیکن بی جے پی نے گزشتہ برس پانچ اگست کو دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ سابق ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کردیا جس سے جموں و کشمیر میں سیاسی اور انتظامی امور میں بڑا خلا پیدا ہوگیا۔اس متنازعہ فیصلے کے فوراً بعد ہی کشمیر کے تمام ہند نواز سیاسی رہنما اور علیحدگی پسند لیڈران اور کارکنوں کو قید کیا گیا جس سے کشمیر میں سیاسی و اقتصادی بحران کھڑا ہوا جس سے لوگ آج بھی جوجھ رہے ہیں-بی جے پی کے ایک سال مکمل ہونے پر کشمیر میں عوامی ردعمل میں صاف ناراضگی دکھائی دے رہی ہے جبکہ بی جے پی کے کارکن ہی حکومت کی تعریف کر رہے ہیں-