متاثرہ کا کہنا ہے کہ 'جموں و کشمیر سے دفعہ 370 اور 35 اے ہٹانے کے بعد گذشتہ 7 اگست کو سعید ابل علاقہ میں احتجاجیوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے پلیٹس اور اشک آور گولے کا استعمال کیا'۔
رافعہ کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت اپنے صحن میں موجود تھیں کہ اسی دوران پلیٹ کے چھرے ان کی بائیں آنکھ میں پیوست ہوگئے۔ جس کے بعد وہ وہیں گرپڑیں۔
رافعہ کو اگرچہ سرینگر کے ایس ایچ ایم ایس اور بھارت کے جنوبی شہر چینئی کے ہسپتالوں میں الگ الگ جراحی عمل سے گزرنا پڑا لیکن اس کے بعد بھی ان کی بائیں آنکھ کی بینائی لوٹ نہیں پائی۔
رفعیہ بینائی سے محروم ہوگئی یہ خاتون ٹین کے بنے دو کمروں میں اپنے خاوند اور چار سال کے بیٹے کے ساتھ انتہائی غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
ان کے خاوند پیشے سے آٹو ڈرائیور ہیں۔ قلیل آمدنی کی وجہ سے رافعہ بینائی کھونے سے پہلے اپنے ہی گھر میں سلائی کا کام کرتی تھیں۔ جس سے وہ اپنے گھریلو اخراجاب اٹھانے کے ساتھ ساتھ بچے کی پرورش بھی اچھے سے کر پاتی تھیں، لیکن اب ایک آنکھ کی بینائی چلے جانے سے یہ خود محتاج ہوگئی ہیں۔
اس واقعہ کے بعد رافعہ کوئی گھریلو کام انجام نہیں دے پارہی ہیں۔ رافعہ کا ماننا ہے کہ اب دوائیوں پر بھی کافی خرچ آرہا ہے۔
موجودہ حالات کے باعث اس کا بوجھ اٹھانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے دن بہ دن ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹروں نے آنکھ کی تیسری سرجری کرنے کی صلاح دی ہے۔ جس کے لیے بھی درکار رقم ان کے پاس موجود نہیں ہے۔
اس طرح کے متاثرہ لوگوں کو انفرادی اور اجتماعی مالی معاونت فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
وہیں انتظامیہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے لوگوں کی مالی مدد کرے تاکہ ان کا درد کچھ تو کم ہو اور وہ اپنی زندگی پھر سے شروع کرسکیں۔