مواصلاتی کمپنیز، فیکٹریز، کارخانوں، نجی بنکوں، ای بزنس کمپنیوں اور دکانوں پر کام کرنے والے ہزاروں کی تعداد میں ملازمین جن میں سے بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے، اپنے معمول کے کام سے محروم ہوگئے ہیں اور گھروں میں بیٹھ کر اپنے اہل خانہ کے لئے باعث فکر مندی بن گئے ہیں۔
وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان جو کہ ایک مواصلاتی کمپنی میں کام کرتے تھے، نے کہا کہ ' ایک ماہ سے لگاتار گھر میں بیٹھنے سے وہ نہ صرف بے روزگار ہوچکے ہیں بلکہ ذہنی تناؤ کا بھی شکار ہوگئے ہیں۔'
انہوں نے اپنی روداد اس طرح بیان کی: 'میں گھر میں بیٹھا ہوں، موبائل خدمات لگاتار بند ہیں، میں تقریباً بے روزگار ہوگیا ہوں، اب میں ذہنی تناؤ کا بھی شکار ہورہا ہوں جس کی وجہ سے میرے گھر والے اب میری نوکری کی فکر سے نہیں بلکہ میری صحت کی وجہ سے متفکر ہوئے ہیں'۔
آٹو موبائل سیکٹر میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے کہا کہ' نوکری سے محروم ہونے سے میرے مالی مشکلات کافی حد تک بڑھ گئے ہیں۔انہوں نے کہا: 'میں پانچ اگست سے گھر پر ہوں، کمپنی والوں نے میری چھٹی کی ہے، آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے گھر میں حالات ایسے ہیں کہ میرے بچوں اور والدین کو فاقے لگ سکتے ہیں'۔
شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان جو کہ شہرہ آفاق سیاحتی مقام گلمرگ کے ایک ہوٹل میں کام کرتے تھے، نے بتایا کہ اگست کے پہلے ہفتے میں سیاحتی سرگرمیاں ٹھپ ہوجانے کے ساتھ ہی ان کی چھٹی کی گئی اور اب وہ بے روزگار ہوچکے ہیں۔