دفعہ 370 کی منسوخی سے کافی پہلے ہی مرکزی حکومت نے ریاست میں نیم فوجی دستوں کی متعدد اضافی کمپنیز بھیج دی تھیں۔ جولائی کے آخری دنوں میں اضافی فوجی دستوں کو جموں و کشمیر میں بھیج دیا جاتا تھا۔
وادی کشمیر میں اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی سے شدید خوف و ہراس کا ماحول تھا اور طرح طرح کی افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وادی کے لوگوں میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت تھی، لوگ عام ضرورت کی چیزوں کے ساتھ ساتھ پیٹرول کا بھی ذخیرہ کرنے لگے تھے۔ اس تناظر میں وادی کے اکثر پیٹرول پمپز پر زبردست بھیڑ دیکھی جا رہی تھیں۔
اس کے بعد گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ 'افواہوں پر توجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ریاست میں حالات ٹھیک ہیں، عوام کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر جعلی خبریں پوسٹ کرکے لوگوں میں خوف کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔'
یکم اگست کو جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں ایک تین رکنی وفد نے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ دہلی میں ملاقات کی جس دوران ریاست کی موجودہ صورتحال پر بات کی گئی۔
جموں و کشمیر کی گورنر انتظامیہ نے 2 اگست کو ایک ایڈوائزری جاری کی جس میں وادی کشمیر میں موجود امرناتھ یاتریوں اور سیاحوں کو فوری طور پر واپس لوٹ جانے کی ہدایت دی گئی۔ ایڈوائزری میں کہا گیا تھا کہ 'خفیہ اطلاعات ہیں کہ یاترا کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کو 'سکیورٹی ایڈوائزری' کا نام دیا گیا تھا۔'
ریاست کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس ایڈوائزری کے جاری ہونے کے ایک روز بعد گورنر ملک سے ملاقات کی۔ محبوبہ مفتی نے پہلے تو اپنے سوشل میڈیا ہینڈل سے اس پر تنقید کی، اس کے بعد انہوں نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔
محبوبہ مفتی نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ 'ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ حالات معمول پر ہیں اور دوسری طرف نیم فوجی دستوں کی کئی کمپنیز ریاست میں بھیج دی جاتی ہیں۔'
اسی روز جموں و کشمیر پرنسپل سکریٹری شالین کابرا نے کہا کہ ' یہ ہدایات اس لیے جاری کی گئی تھیں کہ یاتری جب ریاست میں ہوتے ہیں تو وہ سیاح بھی ہوتے ہیں اور سیر و تفریح کے لیے یہاں وہاں بھی جاتے رہتے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے ہمیں یہ اقدام اٹھانا ضروری تھا۔ وادی کے عوام کو پریشانیوں اور تشویش میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔'
3 اگست کو ریاست کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے گورنر ملک سے ملاقات کی جس کے بعد محبوبہ مفتی نے کہا کہ 'اگرچہ گورنر نے انہیں یقین دلایا ہے کہ 35 اے کے ساتھ کچھ نہیں کیا جائے گا لیکن انہیں اطمینان نہیں ہے۔'
4 اگست کو سرینگر میں ہندنواز سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے کل جماعتی اجلاس منعقد کیا تھا۔ ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر ملک کے عوام اور مرکزی حکومت کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ اگر دفعہ 370 اور 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو اس کے برے نتائج ظاہر ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کا کہنا تھا کہ 'ریاست کی شناخت، خودمختاری اور خصوصی حیثیت کے تحفظ کی جدوجہد کے سلسلے میں وہ متحد ہیں اور متحد رہیں گے لیکن دفعہ 370 کی منسوخی کے فیصلے سے قبل ہی حکومت اور گورنر انتظامیہ نے تمام سیاسی رہنماؤں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا'۔
چار اور پانچ اگست کی درمیانی شب میں جموں و کشمیر میں اچانک انٹرنیٹ، موبائل فون اور لینڈ لائن سروسز کو معطل کر دیا گیا۔
وادی میں معمول کی زندگی 5 اگست کو اس وقت معطل ہوگئی جب مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔
- آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی پر ہند نواز سیاسی رہنماؤں کا ردعمل
چار اور پانچ اگست کی درمیانی شب کو ریاست میں جاری اضطرابی کیفیت کے درمیان سابق وزرائے اعلی عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کو گھر میں نظر بند کرنے کے ساتھ ہی سرینگر میں دفعہ 144 نافذ کر دیا گئی۔ اس کے بعد پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون کو بھی نظر بند کر دیا گیا۔
اس کے بعد سے ہند نواز سیاسی پارٹیوں کے سربراہان سمیت کئی رہنماؤں کو سرینگر کے سنتور ہوٹل کے گیسٹ ہاؤس میں قید رکھا گیا ہے جن میں نیشنل کانفرنس کے رہنما عمرعبدللہ، پی ڈی پی کی رہنما محبوبہ مفتی اور پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد غنی لون شامل ہیں۔