جسٹس علی محمد مگری نے پرویز احمد کی نظربندی ختم کرتے ہوئے حکام کو ہدایت دی کہ وہ انہیں فوری طور پر حراست سے رہا کریں۔
واضح رہے کہ پرویز احمد کو 7 اگست کو حراست میں لیا گیا تھا جس کے بعد ان کے والد نے اسکی نظربندی کے حکم کو اس بنیاد پر چیلنج کیا تھا کہ انہیں حراست میں رکھنے کے لیے کسی بھی وجہ یا حالات کا انکشاف نہیں کیا گیاہے تاکہ وہ پرویز احمد کو احتیاطی طور پر عدالتی تحویل میں لیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ' ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے پرویز احمد کی حراست کے حکم کی بنیادی وجہ فراہم نہیں کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ خود بخود نظربندی کا کوئی حکم منظور نہیں کرسکتا بلکہ کسی بھی نظربندی کے حکم کو منظور کرنے سے قبل اس کے شرائط کو پُر کرنا لازمی ہے۔
پرویز احمد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اور میڈیکل ریکارڈز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا باقاعدہ علاج ہورہا ہے جو درخواست کے ساتھ منسلک تھے۔ مزید یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ پرویز احمد کی مزید نظربندی نہ صرف اس کی موت کا سبب بنے گی بلکہ ان کے کنبہ کے افراد کو ان مشکل دنوں میں اس کی خدمت کرنے سے بھی محروم رکھے گی ۔