سرینگر کے مضافاتی علاقہ حیدرپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر جن کی تاریخی لالچوک میں دکان ہے، نے کہا کہ 7 ستمبر 2014ء کو آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔
انہوں نے کہاکہ ’بارش اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے لیکن ہم اُس شہر میں رہتے ہیں جہاں محض ایک گھنٹے کی بارش سیلاب کا سبب بنتی ہے۔ آپ نے گزشتہ ماہ ہی دیکھا کہ کس طرح آدھے گھنٹے کی بارش کے بعد ہی لالچوک ڈوب گیا‘۔
انہوں نے کہا: 'لالچوک میں ہماری دکانیں 5 اگست سے مسلسل بند ہیں۔ ہمارا کاروبار تو ختم ہوچکا ہے لیکن اب یہ ڈر ستا رہا ہے کہ کسی دن زیادہ بارش ہوئی تو دکانوں میں موجود ہمارا مال بھی خراب ہوجائے گا'۔
وادیٔ کشمیر میں تباہ کن سیلاب کی پانچویں برسی ایک ایسے وقت آئی ہے جب وادی میں مرکزی حکومت کی طرف سے 5 اگست کو لئے گئے فیصلوں جن کے تحت ریاست کو خصوصی درجہ عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے ہٹائی گئی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، کے بعد سے جاری ہڑتال، پابندیوں بے چینی کا سلسلہ 34 ویں روز میں داخل ہوگیا۔
تباہ کن سیلاب کے پانچ سال مکمل سرینگر کے گائو کدل علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد لطیف نامی ایک شہری نے کہا کہ شہر میں جب بھی بارش ہوتی ہے تو سیلاب کا خطرہ فوراً پیدا ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا: 'شہر میں بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ڈرینیج سسٹم ناکارہ ہیں۔ دریائے جہلم کی سطح ہر گزرتے دن کے ساتھ بلند ہورہی ہے۔ سنہ 2014ء کے سیلاب کے بعد مرکزی حکومت نے جس مالی پیکیج کا اعلان کیا تھا، وہ پیسے اگر خرچ کئے گئے تو کہاں خرچ کئے گئے؟ زمینی سطح پر تو کچھ بھی نہیں بدلا ہے'۔
سرینگر کے مضافاتی علاقہ بمنہ کے ایک رہائشی غلام مصطفی نے سیلاب کی تلخ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا: 'مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بارش کا سلسلہ یکم ستمبر کو شروع ہوا تھا۔ بمنہ ایک نشیبی علاقہ ہے۔ جب بارش کا سلسلہ بغیر رکے جاری رہا تو پانی کی سطح میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا گیا جس کے نتیجے میں 4 ستمبر سے ہی ہماری راتوں کی نیند اڑ گئی تھی۔ بالآخر 7 ستمبر کی صبح کو میں نے اپنے مسکن کو پانی میں ڈوبا ہوا پایا۔ میں اور میرے کنبے کے اراکین بعد ازاں ایک کشتی کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل ہوئے تھے'۔
جہاں ستمبر 2014 ء کو آج ہی کے دن دریائے جہلم کی خوفناک موجوں نے کشمیر کے بیشتر علاقوں کو اپنی آغوش میں لے کر کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا وہیں آج دریائے جہلم کا پانی بالکل خاموش ہے اور ایسا لگتا نہیں کہ اس نے آج سے ٹھیک پانچ برس قبل ایک بڑا قہر برپا کیا ہو جس کے نتیجے میں درجنوں انسانی جانیں ضائع ہونے کے علاوہ تین لاکھ رہائشی مکانات، تجارتی ادارے اور دیگر ڈھانچے تباہ ہوگئے ہوں۔
سیلاب میں شدید متاثر ہونے والے راج باغ علاقہ کے ایک رہائشی نے کہا: 'جب میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے رہائشی مکانات کو گرتے ہوئے دیکھا تو مجھے پورا یقین ہوگیا تھا کہ یہ میری اور میرے کنبے کے اراکین کی زندگی کا آخری دن ہے۔ چار روز بعد مجھے اور میرے کنبے کو ایک رشتہ دار نے آکر بچالیا تھا'۔
راج باغ کی طرح سری نگر کے دوسرے درجنوں علاقوں میں لوگ اپنے ہی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے تھے۔ سری نگر کا تجارتی مرکز 'تاریخی لال چوک' سمندر کا منظر پیش کررہا تھا۔
ریاستی حکومت کے مطابق سیلاب کے باعث کشمیر کو ایک لاکھ کروڑ روپے سے زائد کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔ سیلاب سے 280 سے زائد جانیں زیاں ہوئی تھیں، 5642 دیہات متاثرہوئے تھے جن میں سے 800 دیہات کئی ہفتوں تک تک زیر آب رہے تھے جس کے نتیجے میں 12 لاکھ 50 ہزار کنبے متاثر ہوئے تھے۔
سیلاب سے 83 ہزار سے زائد پکے رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے جبکہ 96 ہزار پکے رہائشی مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔ اس کے علاوہ 21 ہزار سے زائد نیم پکے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے جبکہ 54 ہزار سے زائد نیم پکے مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔
تاہم ایک الگ رپورٹ کے مطابق تباہ کن سیلاب سے قریب تین لاکھ رہائشی مکانات، تجارتی اداروں اور دیگر ڈھانچوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
ایک ہندی اخبار 'دینک جاگرن' سے وابستہ فوٹو جرنلسٹ شفاعت صدیق جہانگیر چوک کے نزدیک تباہ کن سیلابی ریلوں کو اپنے کیمرے میں قید کرنے کے دوران بہہ گئے تھے جن کی لاش چار روز بعد دو کلو میٹر دور بتہ مالو میں برآمد کی گئی تھی۔
جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں سے باغبانی، زراعت، شہرۂ آفاق زعفران سمیت زندگی کا ہر ایک شعبہ بری طرح متاثر ہوا تھا وہیں تاریخی لال چوک اورسری نگر کے دیگر حصوں میں قائم بازاروں کی رونقیں ختم ہو کر رہ گئی تھیں۔