وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی والی مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کو ریاستی درجے سے ہٹا کر یوٹی میں ضم کیے جانے کے اُس تاریخی فیصلے کا آج پہلا سال ہے۔
پانچ اگست 2019 کو لیے گئے غیر معمولی فیصلے کے بعد جموں و کشمیر کی ہند نواز سیاست کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند سیاست پر بھی خاصا اثر دیکھنے کو ملا۔
ایک سال کے دوران کشمیر کے سیاسی منظرنامہ میں کیا بدلا؟ دفعہ 370 کی منسوخی کے اعلان سے قبل ہی یہاں کے ہند نواز سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں کے علاوہ علیحدگی قیادت کو بھی یا تو جیلوں میں بند رکھا گیا یا تو انہیں گھروں میں ہی نظر بند کیا گیا۔ حکومت نے کئی طرح کی بندشیں اور قدغنیں عائد کر کے سیاسی سرگرمیوں کو مسدود کر دیا جبکہ عوامی مزاحمت کو روکنے کے لیے کئی سخت گیر اقدامات اٹھائے جن میں مکمل مواصلاتی لاک ڈاؤن بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں
8 سے 10 ہزار تک لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ مختلف جماعتوں کے تمام چھوٹے بڑے رہنماؤں سمیت تین سابق وزارئے اعلی کو گرفتار کیا گیا۔ کئی مہینوں کے بعد اگرچہ دو وزیر اعلی فاروق عبدللہ اور عمر عبدللہ کے علاوہ سبھی مین اسٹریم جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنان کی رہائی عمل میں لائی گئی لیکن سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ابھی بھی خانہ نظر بند ہیں۔ ادھر متعدد علیحدگی پسند رہنما بھی یا تو قید میں ہیں یا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی گھروں میں ہی نظر بند ہیں۔
5 اگست کے بعد جموں و کشمیر کی مین اسٹریم سیاست میں اس وقت اچانک ہلچل دیکھنے کو ملی۔ جب محبوبہ مفتی کی سیاسی جماعت پی ڈی پی کے برطرف رہنما الطاف بخاری نے کئی پی ڈی پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ساتھ میں لے کر اپنی پارٹی کا اعلان کیا۔ پارٹی کے اعلان سے قبل بخاری نے دہلی میں بی جے پی کے کئی سرکردہ رہنماؤں سے بھی ملاقات کی تھی۔ اپنی پارٹی کے نام پر نئی سیاسی جماعت کے معرض وجود میں آنے کے بعد اگرچہ بیشتر سیاسی رہنماؤں نے اسے بی جے پی کی بی پارٹی مانتے ہوئے الطاف بخاری پر کئی سوالات اٹھائے لیکن بخاری کا کہنا ہے کہ پارٹی دہلی اور کشمیری عوام کے درمیان عدم اعتمادی کے خاتمے اور روزمرہ عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے کام کرنا چاہتی ہے۔
گزشتہ برس 4 اگست کی رات سے لے کر اگلے تقریباً 7ماہ تک کسی بھی ہند نواز یا ہند مخالف سیاسی جماعت کی جانب سے کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا۔ تاہم گزشتہ چند ماہ سے لگ بھگ تمام مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں کی رہائی کے بعد اب بیانات آنا شروع ہو گئے ہیں لیکن سیاست ابھی بھی بیانات سے آگے بڑھ نہیں پائی ہے۔ یہاں کی بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، کانگریس یا نئی معرض وجود میں آئی اپنی پارٹی کی جانب سے بھی کوئی سیاسی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی۔
سابق وزرائے اعلی فاروق عبدللہ اور عمر عبدللہ کی رہائی کے بعد این سی کے علاوہ پی ڈی پی اور کئی دیگر جماعتوں کے رہنما، 5 اگست 2019 کو لیے گئے فیصلے کی اپنے بیانات کے زریعے نہ صرف سخت مخالفت کر رہے ہیں بلکہ جموں و کشمیر تنظیم نو اور آئے روز متنازعہ فیصلوں پر بھی مسلسل نکتہ چینی کر رہے ہیں۔
اگرچہ بی جے پی دفعہ 370 کو ہٹانے کے اپنے فیصلے کو ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہے لیکن نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن بحال کرنے کی اپنی مانگ کو بار بار دہرا رہی ہے۔
ادھر علیحدگی پسند رہنماؤں کے اعتدال دھڑے نے بھی 11 ماہ کی خاموشی توڑ کر 2 جولائی کو اپنے ایک بیان میں مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کا اپنا مطالبہ دہرایا۔ وہیں بھارت اور پاکستان کی حکومتوں پر زور دیا کہ بات چیت کے ذریعے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اس کا حل نکالا جائے۔ دراصل میر وعظ محمد عمر فاروق کی قیادت والے علیحدگی پسند دھڑے کا یہ بیان بزرگ رہنما سید علی گیلانی کُل جماعتی حریت کانفرنس سے خیر باد کہنے کے بعد سامنے آیا۔
بہرحال دفعہ 370 کی منسوخی کو ایک برس کا عرصہ ہو چکا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا جموں و کشمیر میں سیاست بیان بازی تک ہی محدود رہے گی یا آنے والے وقت میں یہاں پھر سے سیاسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں گی۔