اس تباہ کن سیلاب میں سرینگر کے مضافات رکھ ارتھ کے 18 کنبے بھی زد میں آگئے تھے۔
'کب تک ہم ریلیف کے منتظر رہیں گے' اگرچہ انتظامیہ نے ان کو بعد ازاں بمنہ میں منتقل کیا تھا اور ان کی رہائش کے لیے عارضی شیڈ بنائے تھے، تاہم وقت کے ساتھ ان شیڈز کی حالت خستہ ہوگئی اور یہ رہائش کے لائق نہیں رہ گئے۔
اس بستی کے باشندوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے ان کو پانچ مرلہ زمین کے علاوہ رہائشی مکان تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا جو سیلاب زدگان کے لیے بطور ریلیف تھا۔ تاہم انکا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے رکھ ارتھ سے منتقل کرکے بمنہ میں انہیں فراموش کردیا۔
مقامی رہائشی شیڈز کے اردگرد گندگی کے ڈھیر جمع ہوگئے ہیں جن سے بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ان مکینوں کو اب روز مرہ کی مشکلات کا سامنا ہے اور انتظامیہ ان کی خبرگیری بھی نہیں کر رہی ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ انتظامیہ لوگوں کی بہبود کے لئے متعدد اسکیموں کا اعلان آئے روز کر تی رہتی ہے تاہم ان کے پاس کسی بھی اسکیم کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا ہے۔
مقامی باشندہ شبیر احمد نے بتایا کہ گزشتہ برسوں سے وہ ہر متعلقہ افسر کے پاس اپنی مشکلات اور شکایات لے کر گئے ہیں تاہم کسی بھی افسر نے ان کی مشکلات کا ازالہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔
غور طلب ہے کہ سنہ 2014 کے تباہ کن سیلاب کے بعد مرکزی سرکار نے جموں وکشمیر کے لئے 80 ہزار کروڑ روپئے کا ریلیف پکیج واگزار کیا تھا جس کے تحت ہر متاثرہ کنبے، جس کا مکان تباہ ہوا تھا، کو ساڑھے چار لاکھ روپئے کا معاوضہ دیا گیا تھا لیکن سرینگر کے بمنہ میں یہ متاثرین پوچھ رہے ہیں کہ کب تک یہ اس ریلیف کے منتظر رہیں گے؟