واضع رہے کہ گذشتہ روز جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر کے جہانگیر چوک میں پولیس نے صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ کی۔ اس میں کئی صحافیوں کے زخمی ہونے کی خبر سامنے آئی۔
معاملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فوٹو جرنلسٹ وسیم اندرابی کا کہنا تھا کہ "ہم اپنا کام کر رہے تھے اور اسی دوران شیرگری تھانے کے ایس ایچ او آفتاب احمد نے ہمارے کام میں رکاوٹ پیدا کی۔ ہم سب پر لاٹھیاں برسائے گئیں۔ ویڈیوز میں سب دکھائی دے رہا ہے۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "چوٹ تو سب کو لگی ہے۔ ایک ساتھی کا کیمرہ اور لینس بھی توڑ دیا گیا۔ اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ اس پولیس آفسر نے ہمیں دھمکی بھی دی کہ ہمارے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔"
اس معاملے کی جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور دیگر لیڈران نے مذمت بھی کی۔ جہاں پی ڈی پی کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی نے ردعمل ظاہر کرتےہوئے کہا کہ "میڈیا ابھی گھنٹوں افغانستان کے صورتحال اور انسانی المیہ پر بحث کر رہی ہے لیکن کیا وہ کشمیر میں موجود اپنے کمیونٹی کے بارے میں آواز بلند کرے گی کہ آج کن لوگوں کو اپنا کام کرنے کی وجہ سے سکیوریٹی فورسز نے مارا؟"
وہیں، نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ "یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جموں و کشمیر پولیس کے اہلکار بے رحمی سے صحافیوں کی سرینگر میں پٹائی کر رہے ہیں۔ یہ صحافی صرف اپنا کام کر رہے تھے (خبر کی رپورٹنگ)۔ یہ نہ تو خبر بناتے ہیں اور نہ ہی وہ کہانی بنانے کے لیے واقعات کا انعقاد کرتے ہیں۔ میں اُمید کرتا ہوں کی لیفٹیننٹ گورنر ایسے معاملے دوبارہ پیش نہ آئیں، اس کے اقدامات اٹھائے گئے۔"
قبل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں پولیس کی جانب سے صحافیوں کی پٹائی ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آئے دن ایسے معاملے خبروں کی زینت بنتی ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ سے اب تک درجنوں صحافیوں کو پولیس کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس حوالے سے کشمیر کے ایوان صحافت نے بھی گزشتہ برس اپنا بیان جاری کیا تھا۔