اردو

urdu

کشمیر میں اخبارات کی آمدنی کی ’جانچ‘ شروع

جموں وکشمیر انتظامیہ نے مقامی اخبارات کے مدیران سے گذشتہ تین برسوں کے انکم ٹیکس کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔

By

Published : Oct 25, 2019, 10:13 AM IST

Published : Oct 25, 2019, 10:13 AM IST

Updated : Oct 25, 2019, 4:13 PM IST

کشمیر میں اخبارات کی آمدن کی ’جانچ‘ شروع

جموں وکشمیر انتظامیہ نے مقامی اخبارات کے مدیران سے گذشتہ تین برسوں کے انکم ٹیکس کا ریکارڈ طلب کرنے پر اگرچہ ریاستی محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ (ڈی آئی پی آر) کے عہدیداروں نے ایک سالانہ مشق قرار دیاہے لیکن اخبارات کے مالکان یا ایڈیٹرز کا کہنا ہے کہ اس اعلان نے انہیں حیرت میں ڈال دیا ہے۔ان کے مطابق یہ اقدام انہیں مرعوب کرنے کی کوشش ہے۔

جموں و کشمیر میں محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ حکومت اور میڈیا کے درمیان تال میل کا مؤثر ادارہ ہے۔ اسی کے ذریعے اخبارات کو اشتہارات فراہم کئے جاتے ہیں جبکہ محکمہ حکومت کی کارکردگی سے متعلق مواد اخبارات کو بغرض اشاعت ارسال کرتا ہے۔

اخبارات کے مالکان اور مدیروں کی ہمیشہ شکایت رہی ہے کہ اشتہارات کی فراہمی میں فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا اور انہیں ملنے والی شرحیں انتہائی قلیل ہیں۔

یوں تو ریاست سے سینکڑوں اردو، انگریزی اور ہندی اخبارات شائع ہوتے ہیں لیکن اچھی سرکیولیشن والے اخبارات کی تعداد کم ہے۔

اخبارات کو تین برسوں کے انکم ٹیکس گوشوارے فراہم کرنے کرنے کی 'صلاح' محکمہ اطلاعات کے ایک عہدیدار نے دی، جب مقامی صحافی محکمے کے قائم کردہ عارضی میڈیا سنٹر میں کام کررہے تھے۔ یہ میڈیا سینٹر اگست میں قائم کیا گیا تاکہ اپنے دفاتر میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی صورت میں میڈیا ادارے حکومت کی فراہم کردہ سہولیت کا فائدہ اٹھا سکیں۔ اس میڈیا سینٹر میں متعدد کمپیوٹر نصب کئے گئے ہیں جن پر انٹرنیٹ کی سہولیت دستیاب ہے۔

یہ سنٹر ابتدا میں سر ینگر کے ایک ہوٹل کے کانفرنس روم میں قائم کیا گیا تھا لیکن اس ہفتے اسے ڈی آئی پی آر کے مرکزی دفتر میں منتقل کردیا گیا۔

عہدیدار نے کہا کہ 'مقامی اخبارات میں ملازم صحافی اپنے ایڈیٹرز کو گذشتہ تین برسوں کا انکم ٹیکس رٹرنز ڈی آئی پی آر کو پیش کرنے کے لئے بتائیں۔'

اس اعلان سے پہلے عہدیدار نے پوچھا کہ 'کیا کمرے میں موجود افراد 'پرنٹ میڈیا' کے ممبر ہیں؟'

ایک مقامی انگریزی روزنامہ کے ایڈیٹر نے بتایا کہ 'ہم سے پہلی بار انکم ٹیکس رٹرنز مانگے جارہے ہیں۔ ہمیں اسکی صحیح وجہ معلوم نہیں ہے۔'

کشمیر میں 5 اگست سے پہلے ہی میڈیا کی نکیل کسنے کی کوششیں شروع کی گئی تھی۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے چند ماہ قبل کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر کے پرنٹر اور پبلشر رشید مخدومی کو دلی طلب کیا اور انکے ساتھ کئی روز تک پوچھ تاچھ کی۔ اسکے بعد اسی اخبار کے مدید فیاض کلو کو بھی ایسے ہی مراحل سے گزارا گیا۔

گریٹر کشمیر کے مدیران کی دلی طلبی کے بعد ایک اور انگریزی روزنامہ کشمیر ریڈر کے مالک و مدیر حاجی حیات محمد بٹ کو این آئی اے ہیڈکوارٹر پر طلب کیا گیا۔اردو روزنامہ آفاق کے مدیر غلام جیلانی قادری کو بھی پولیس نے ایک شبانہ چھاپے میں انکی رہائش گاہ سے گرفتار کیا۔ قادری کو تیس برس پرانے کیس میں وارنٹ جاری کیا گیا تھا۔

مقامی صحافیوں کے مطابق اگرچہ ان مدیروں کو بعد میں جانے دیا گیا لیکن انکی طلبی اور پوچھ تاچھ سے حکام نے ایک پیغام ارسال کیا جسے صحافیوں نے بخوبی سمجھ لیا ہے۔

انکم ٹیکس کے حوالے سے ایک مقامی ایڈیٹر نے بتایا کہ انہیں ابھی تک اس سلسلے میں باضابطہ مواصلت حاصل نہیں ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'جو کچھ بھی بتایا گیا وہ صرف زبانی تھا۔ ہمیں کوئی تحریری مواصلت نہیں موصول ہوئی ہے۔ جب ہمیں تحریری مواصلت فراہم کیا جائے تبھی ہم معالوم کر سکتے ہے کہ یہ کیا معاملہ ہے'۔

تاہم ڈی آئی پی آر حکام نے اصرار کیا کہ 'دستاویزات طلب کرنا معمول کی مشق ہیں۔'

ایک سینئیر عہدیدار نے بتایا کہ 'ہم اخبارات کے ساتھ کام کرتے ہے اور ان دعوؤں میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ڈی آئی پی آر پہلی بار انکم ٹیکس کے ریکارڈ طلب کر رہا ہے۔ہم یہ ہر سال کرتے ہیں'۔

ایک اردو روزنامہ کے ایڈیٹر نے اس دلیل کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'ڈی آئی پی آر کو پچھلے برسوں سے مواصلات پیش کرنا چاہیں تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ یہ کام پہلے بھی ہوچکا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'یہ پہلی بار ہے جب ڈی آئی پی آر انکم ٹیکس گوشوارے مانگ رہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمیں جمعہ تک تفصیلات جمع کروائیں۔'

ایک مقامی صحافی نے بتایا کہ 'یہ اقدام ہمیں خوفزدہ کرنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں ہے۔ ریاستی انتظامیہ یہاں کے مقامی پریس کو دبانا اور ڈرانہ چاہتی ہے۔'

یہ اعلان تب آیا جب جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل پولیس دلباغ سنگھ نے 5 اگست کو ریاست کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد مقامی میڈیا کی 'ذمہ دار خبروں' پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

Last Updated : Oct 25, 2019, 4:13 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details