جموں وکشمیر انتظامیہ نے مقامی اخبارات کے مدیران سے گذشتہ تین برسوں کے انکم ٹیکس کا ریکارڈ طلب کرنے پر اگرچہ ریاستی محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ (ڈی آئی پی آر) کے عہدیداروں نے ایک سالانہ مشق قرار دیاہے لیکن اخبارات کے مالکان یا ایڈیٹرز کا کہنا ہے کہ اس اعلان نے انہیں حیرت میں ڈال دیا ہے۔ان کے مطابق یہ اقدام انہیں مرعوب کرنے کی کوشش ہے۔
جموں و کشمیر میں محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ حکومت اور میڈیا کے درمیان تال میل کا مؤثر ادارہ ہے۔ اسی کے ذریعے اخبارات کو اشتہارات فراہم کئے جاتے ہیں جبکہ محکمہ حکومت کی کارکردگی سے متعلق مواد اخبارات کو بغرض اشاعت ارسال کرتا ہے۔
اخبارات کے مالکان اور مدیروں کی ہمیشہ شکایت رہی ہے کہ اشتہارات کی فراہمی میں فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا اور انہیں ملنے والی شرحیں انتہائی قلیل ہیں۔
یوں تو ریاست سے سینکڑوں اردو، انگریزی اور ہندی اخبارات شائع ہوتے ہیں لیکن اچھی سرکیولیشن والے اخبارات کی تعداد کم ہے۔
اخبارات کو تین برسوں کے انکم ٹیکس گوشوارے فراہم کرنے کرنے کی 'صلاح' محکمہ اطلاعات کے ایک عہدیدار نے دی، جب مقامی صحافی محکمے کے قائم کردہ عارضی میڈیا سنٹر میں کام کررہے تھے۔ یہ میڈیا سینٹر اگست میں قائم کیا گیا تاکہ اپنے دفاتر میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی صورت میں میڈیا ادارے حکومت کی فراہم کردہ سہولیت کا فائدہ اٹھا سکیں۔ اس میڈیا سینٹر میں متعدد کمپیوٹر نصب کئے گئے ہیں جن پر انٹرنیٹ کی سہولیت دستیاب ہے۔
یہ سنٹر ابتدا میں سر ینگر کے ایک ہوٹل کے کانفرنس روم میں قائم کیا گیا تھا لیکن اس ہفتے اسے ڈی آئی پی آر کے مرکزی دفتر میں منتقل کردیا گیا۔
عہدیدار نے کہا کہ 'مقامی اخبارات میں ملازم صحافی اپنے ایڈیٹرز کو گذشتہ تین برسوں کا انکم ٹیکس رٹرنز ڈی آئی پی آر کو پیش کرنے کے لئے بتائیں۔'
اس اعلان سے پہلے عہدیدار نے پوچھا کہ 'کیا کمرے میں موجود افراد 'پرنٹ میڈیا' کے ممبر ہیں؟'
ایک مقامی انگریزی روزنامہ کے ایڈیٹر نے بتایا کہ 'ہم سے پہلی بار انکم ٹیکس رٹرنز مانگے جارہے ہیں۔ ہمیں اسکی صحیح وجہ معلوم نہیں ہے۔'
کشمیر میں 5 اگست سے پہلے ہی میڈیا کی نکیل کسنے کی کوششیں شروع کی گئی تھی۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے چند ماہ قبل کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر کے پرنٹر اور پبلشر رشید مخدومی کو دلی طلب کیا اور انکے ساتھ کئی روز تک پوچھ تاچھ کی۔ اسکے بعد اسی اخبار کے مدید فیاض کلو کو بھی ایسے ہی مراحل سے گزارا گیا۔