مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر میں سیکورٹی ایجنسیاں، متعلقہ تکنیکی عملہ اور انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرس صارفین کی وی پی این ایپلی کیشنز کے ذریعے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک رسائی کو روکنے کے لئے کوششوں میں جٹ گئے ہیں اور اس سلسلے میں بی ایس این ایل کی طرف سے نوئیڈا اور بنگلور سے ضروری سامان بھی منگوایا گیا ہے۔
سافٹ ویئر انجینئرس کا ماننا ہے کہ تمام وی پی این اپیلی کشنز کو بند کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بات ہے اور خریدی گئی وی پی این اپلی کیشنز کو کسی بھی صورت میں بند نہیں کیا جاسکتا۔
ایک سافٹ ویئر انجینئر نے نام مخفی رکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے بتایا 'نئی وی پی این ایپلی کیشنز بند کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر تکنیکی ٹیم پہلے ہی دستیاب اور مفت وی پی این ایپلی کیشنز کو بند کر سکتی ہیں لیکن نئی وی پی این ایپلی کیشنز کو بند نہیں کیا جاسکتا'۔
مزید پڑھیے:-
کشمیر: میڈیکل کالج کے لیے ایک بدنما داغ
بجٹ 2020: مندی کے دور میں کشمیر کے لیے کیا کچھ رہے گا خاص؟
موصوف انجینئر نے کہا 'وی پی این ایپلی کیشنز کو پیسہ کمانے کے لئے ڈیولوپ کیا جاتا ہے اور ڈیولاپرس ان کے چلنے کو ہر حال میں یقینی بنائیں گے'۔
ادھر وادی میں وی پی این ایپلی کشنز کو بند کرنے کی کوششیں سوشل میڈیا پر ایک گرم موضوع بحث بن گئی ہیں۔
ایک فیس بک صارف نے وی پی این کی فل فارم 'ویلیز پنن نیٹورک’ یعنی 'وادی کا اپنا نیٹورک' لکھا ہے جبکہ ایک دوسرے صارف نے وادی میں وی پی این کو بند کرنے کے سلسلے میں اظہار رائے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب وادی میں چھ ماہ تک انٹرنیٹ سروس کو معطل رکھنا خلاف قانون نہیں ہے تو وی پی این کا استعمال کیونکر غیر قانونی ہے'۔