پیر اور منگل کی درمیانی شب کو ہونے والی ہلاکت خیز جھڑپ کے باعث جنم لینے والی کشیدگی کی وجہ سے جہاں لداخ یونین ٹریٹری میں خوف ودہشت کا ماحول ہے وہیں دوسری طرف سری نگر – لیہہ قومی شاہراہ پر فوجی اور جنگی ساز و سامان والی گاڑیوں کی نقل وحمل بڑھ جانے سے بھی لوگوں میں تشویش بڑھ گئی ہے۔
تاہم دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ لداخ میں جنگی ساز و سامان کو دفاع کے لئے لایا جارہا ہے جنگ کے لئے نہیں۔ بھارت مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے حق میں ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ طرفین کے درمیان میجر جنرل سطح پر گذشتہ تین روز سے جاری بات چیت بھی فی الوقت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائی ہے۔ جہاں بھارت کا مطالبہ ہے کہ چینی فوجی واپس اپنے حصے میں چلے جائیں وہیں چین گلوان وادی پر اپنا حق جتا رہا ہے۔
لداخ کے ضلع لیہہ میں لوگوں کا کہنا ہے کہ گلوان وادی میں بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے خوف ودہشت کا ماحول یہاں ہر سو چھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی فوجیوں نے جس بے دردی سے بھارتی فوجیوں پر حملہ کر کے انہیں لہو لہان کیا جس کے نتیجے میں کئی فوجی ہلاک ہوگئے اور کئی زخمی ہوگئے، وہ قابل مذمت ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کو مذاکراتی میز پر آکر مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہئے۔
لداخ سے ایک صحافی نے بتایا کہ لیہہ کی فضا میں ہیلی کاپٹرس اور جنگی جہاز کئی روز سے گردش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلوان وادی کی تازہ صورتحال کے متعلق زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آرہی ہیں جس کی دو وجوہات ہیں۔ اول گلوان وادی اور اس کے اطراف واکناف میں فون خدمات منقطع کی گئی ہیں دوم کسی کو بھی سرحد کے نزدیک جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
مذکورہ صحافی نے بتایا کہ سری نگر – لیہہ شاہراہ پر فوجی قافلوں کو لیہہ کی طرف رواں دواں دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ان فوجی قافلوں میں شامل گاڑیاں فوجیوں اہلکارں اور جنگی ساز و سامان سے لدی ہیں۔
دریں اثنا لیہہ سے تعلق رکھنے والے کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر رگزن سپلبار کا ماننا ہے کہ لداخ میں چین کی من مانی بھارت کی گذشتہ ساٹھ برسوں سے چپ سادھ لینے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے ٹھوس اقدام کئے ہوتے تو چین آج گلوان وادی میں آٹھ کلو میٹر اندر داخل نہیں ہوتا۔