بتادیں کہ حکومت نے وادی کشمیر میں قریب چھ ماہ کے طویل عرصے کے بعد 25 جنوری کو ٹو جی رفتار والی موبائیل انٹرنیٹ خدمات بحال کیں تاہم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سہولیات ہنوز معطل ہی ہیں۔
پیشہ ور افراد اور طلبا کا کہنا ہے کہ ٹوجی موبائیل انٹرنیٹ سروس کی بحالی سے کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے کیونکہ وہ ای میل چیک کرنے اور فارم جمع کرنے سے قاصر ہیں۔
مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کے ایک گروپ نے کہا کہ وادی میں ٹو جی رفتار والی انٹرنیٹ سروس کی بحالی بے سود و بے مقصد ہے۔
انہوں نے کہا: 'حکومت نے وادی میں ٹو جی موبائیل انٹرنیٹ خدمات بحال کی ہے لیکن اس سروس سے کوئی کام ہی نہیں نکلتا ہے، میلنگ سائٹس کھل رہی ہیں نہ کوئی دستاویز ڈاون لوڈ ہورہا ہے'۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر قدغن جاری رہنے کے باوجود بھی انٹرنیٹ کی رفتار کو انتہائی سست رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایک طرف سوشل میڈیا پر پابندی بدستور جاری رکھی گئی ہے تو دوسری طرف انٹرنیٹ سہولیات کی رفتار معمول کے مطابق ہونی چاہئے تھی۔
ایک طالب علم نے کہا کہ مجھے ایک اہم دستاویز میل کرنا تھا لیکن جی میل کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔
انہوں نے کہا: 'مجھے ایک اہم دستاویز میل کرنا تھا میں نے جی میل کو کھولنے کی انتھک کوشش کی، گھنٹوں تک انتظار کرنے کے بعد بھی جی میل نے کھلنے کا نام ہی نہیں لیا جس کے نتیجے میں، میں میل کرنے سے قاصر رہ گیا'۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ٹو جی رفتار والے موبائیل انٹرنیٹ کی بحالی سے ان کے مشکلات میں کوئی خاص ازالہ نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف سوشل میڈیا جو خبروں کے حصول کا اہم اور موثر ذریعہ ہے، بدستور بند ہے اور دوسری طرف کئی اہم خبر رساں اداروں کی سائٹس وائٹ لسٹڈ سائٹس میں شامل ہی نہیں ہیں۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے 301وائٹ لسٹڈ سائٹس میں سے بھی بیشتر سائٹس نہیں کھل رہی ہیں کیونکہ ان کو کھولنے کے لئے ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ سہولیات کی ضرورت ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر کے محکمہ داخلہ کی طرف سے جاری ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں 25 جنوری سے ٹو جی رفتار والی انٹرنیٹ سروس بحال ہوگی۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ صارفین کو وائٹ لسٹڈ ویب سائٹس تک ہی رسائی ممکن ہوگی اور وادی میں سوشل میڈیا ایپلی کیشنز پر پابندی مسلسل عائد رہے گی۔
ادھر حکومت کی طرف سے جاری 301 وائٹ لسٹڈ ویب سائٹوں میں قومی سطح کے خبر رساں ادارے جیسے یو این آئی، پی ٹی آئی اور آئی اے این ایس کی ویب سائٹس شامل نہیں ہیں۔