اس کی وجہ سے یہ تعلیمی ادارے کم فوجی کیمپ زیادہ نظر آرہے ہیں۔اس خوفناک خاموشی سے طلبا کی پڑھائی کس طرح سے ممکن ہے؟ ان تعلیمی مراکز کے آس پاس خوف و ہراس کا ماحول پایا جاتا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کے اندر اور باہر اس طرح کی صورتحال پائی جائے تو ڈر کے سائے میں پڑھائی یا درس و تدریس کی سرگرمیاں کیسے بحال ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
'خوف کے سائے میں بچوں کی پڑھائی ممکن'؟ قابل ذکر ہے وادی میں پانچ اگست سے تعلیمی سرگرمیاں مسلسل معطل ہیں اگرچہ انتظامیہ نے تعلیمی اداروں کے کھلنے کے اعلانات کئے ہیں لیکن کالجوں میں درس وتدریس کا سلسلہ بند ہے، عملہ تو حاضر رہتا ہے لیکن اسکولوں سے لے کر کالجوں تک طلبا کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔
انتظامیہ کی جانب سے ہائی سکینڈری اسکولوں اور کالجوں میں درس وتدریس کا عمل بحال کرنا ایک مصیبت اور حوصلہ افزا قدم ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے ان تعلیمی اداروں کو ڈیرا زن سکیورٹی اہلکار سے خالی کروایا جائے تاکہ بچوں کی تعلیم میں خلل نہ پڑے۔ طالبا ہی اپنی پڑھائی کر سکیں گے جن انہیں خوف و خطر کے بغیر ایک سازگار ماحول فراہم کیا جاسکیں۔
بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو خصوصی درجہ عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے اعلان سے قبل وادی میں سکیورٹی فورسز کی درجنوں اضافی کمپنیاں تعینات کی گئی تھیں جس کی وجہ سے عوامی اور سیاسی حلقوں میں سراسیمگی پھیل گئی تھی اور وادی میں چہار سو خوف وہراس کے بادل سایہ فگن ہوئے تھے۔