سماجی رابطے کی ویب سائٹس خصوصاً فیس بک اور ٹویٹر پر یہ خبر چھائی ہوئی ہے اور اس پر مختلف قسم کا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔
کشمیر کے سابق وزرائے پر پی ایس اے عائد کرنا موضوع بحث جموں و کشمیر گورنر انتظامیہ نے گزشتہ شب دونوں سابق وزرائے اعلی عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی پر پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کردیا، جس کے تحت انہیں تین یا اس سے مزید ماہ تک بغیر کسی ٹرائل حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔
ادھر دو مزید سینئر سیاسی رہنماؤں بشمول نیشنل کانفرنس کے علی محمد ساگر اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سرتاج مدنی پر بھی پی ایس اے کا اطلاق عمل میں لایا ہے۔
خیال رہے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ اب تک مذکورہ رہنما مسلسل نظر بند ہیں البتہ کئی رہنماؤں کو وقفے وقفے پررہا بھی کیا گیا ہے-
عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی پر پی ایس اے عائد کرنا اس وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر موضوع بحث بنا ہوا ہے-
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہزاروں فیس بک و ٹویٹر صارفین نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی سراہنا بھی کی- اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ وزرائے اعلیٰ کے دور حکومت میں پی ایس اے کے تحت ہزاروں کشمیریوں پر ایسے ہی پی ایس اے کا اطلاق ہوتا آیا ہے۔
ٹویٹر پر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کئی صارفین نے رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھا " پی ایس اے اور دیگر سخت قوانین کا استعمال نہ صرف عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کے دور حکومت میں ہوتا رہا بلکہ ریاست میں ایسے کالعدم قوانین کو متعارف کرانے والے بھی یہی مین سٹریم رہنما ہی ہیں-"
ادھر اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کئی سیاسی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ جموں و کشمیر کے چار سینئر سیاسی رہنماؤں پر پی ایس اے لگانا غیر جمہوری و غیر آئینی ہونے کے ساتھ ساتھ مرکزی سرکار کے "کشمیر میں سب کچھ معمول پر ہے" کے دعوے کو کھوکھلا ثابت کرتا ہے-