اردو

urdu

ETV Bharat / state

کشمیر میں امسال ہوئی ہلاکتوں پر ایک نظر - پولیس ذرائع کے مطابق رواں برس تشدد کے

شورش زدہ کشمیر میں رواں برس تشدد کے واقعات ہر ماہ پیش آئے تاہم 5 اگست کے بعد ان واقعات میں کمی دیکھنے کو ملی۔

کشمیر میں امسال ہوئی ہلاکتوں پر ایک نظر
کشمیر میں امسال ہوئی ہلاکتوں پر ایک نظر

By

Published : Dec 24, 2019, 11:42 PM IST



پولیس ذرائع کے مطابق رواں برس تشدد کے 139واقعات پیش آئے جن میں انسانی جانوں کا زیاں ہوتا رہا اور ساتھ ساتھ کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں کی پر تشدد تاریخ میں ایک اور باب کا اندرج ہوا۔

یہ پر تشدد واقعات وادی کشمیر کے علاوہ حد متارکہ پر بھی پیش آئے۔ ان میں عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان تصادم، عام شہریوں کی ہلاکتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ان واقعات میں جہاں عام شہری بھی اپنی جانیں گنوا بیٹھے وہیں سیکورٹی اہلکار اور عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے۔

ذرائع کے مطابق رواں سال میں 50 عام شہری ہلاک ہوئے، وہیں 152عسکریت پسند سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ مختلف تصادم آرائیوں میں ہلاک ہوئے۔

رواں برس ہلاک شدہ سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد 80 رہی ۔ سیکورٹی فورسز کی سب سے زیادہ ہلاکتیں جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ایک خودکش حملے میں ہوئی۔ یہ حملہ سرینگر - جموں قومی شاہراہ پر ماہ فروری میں عسکریت پسندوں کی جانب سے کیا گیا تھا جس دوران 40 نیم فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

پلوامہ خودکش حملے میں جیش محمد نامی تنظیم سے منسلک مقامی عسکریت پسند عادل احمد ڈار شامل تھا۔ 19 سالہ عادل پلوامہ ضلع کے کاکپورہ علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔

پلوامہ حملے کے بعد سیکورٹی فورسز نے جیش محمد کے خلاف کارروائی میں سرعت لاتے ہوئے اس تنظیم کے 50 عسکریت پسند ہلاک کئے جن میں انکے کئی کماندر بھی شامل تھے۔

امسال مئی کا مہینہ بھی خون آشام ثابت ہوا، اس ماہ میں سب سے زیادہ عسکریت پسند ہلاک کئے گئے۔ مئی ماہ میں ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کی تعداد 28 رہی جبکہ سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت ماہ فروری میں زیادہ رہی جس میں 49 اہلکار ہلاک ہوئے۔

عام شہریوں کی ہلاکت کی تعداد 50 رہی جس میں اکتوبر کے مہینے میں 15 شہری ہلاک کئے گئے۔ ان ہلاک شدہ شہریوں میں غیر مقامی افراد بھی شامل تھے، جن کی تعداد 11 رہی۔ یہ ہلاک شدہ افراد ٹرک ڈرائیور، میوہ بیوپاری اور مزدور تھے جو سیب کی کاشتکاری کے سیزن میں مارے گئے جب مقامی باغ مالکان کو بیرون ریاست منڈیوں میں سیب نہ بھیجنے کی دھمکیاں دی گئی تھی۔

مرکزی سرکار کی جانب سے پانچ اگست کو جموں و کشمیر کے خصوصی تشخص کو منسوخ کرنے اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام خطوں (Union Territories) میں تقسیم کرنے کے بعد تشدد کے واقعات، خاص طور سے تصادم آرائیوں، میں کمی واقع ہوئی۔

پولیس ذرائع کے مطابق 5 اگست کے بعد عسکریت پسندوں کی ہلاکت میں کمی رونما ہوئی۔ اس کمی کا باعث سرکار کی جانب سے مواصلاتی نظام پر پابندی عائد کرنا بتائی جاتی ہے۔

5 اگست کو سرکار نے جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کے علاوہ پوسٹ پیڈ اور پری پیڈ موبائل فون پر پابندی عائد کی جس کی وجہ سے عوام کا رابطہ دنیا سے منقطع ہوگیا۔ ساتھ ہی ساتھ اس سے سیکورٹی فورسز کے اینٹی ملیٹنسی آپریشنز میں بھی کافی گراوٹ آئی۔

ذرائع کے مطابق 5 اگست کے بعد وادی کشمیر میں 18 عسکریت پسند ہلاک کئے گئے، جن میں 11 عسکریت پسندوں کی ہلاکت پوسٹ پیڈ موبائل فون کی بحالی کے بعد ہوئی۔

رواں سال عسکریٹ پسندوں کے اعلیٰ سطحی کمانڈروں کی ہلاکت بھی ہوئی جس میں انصار غزوۃ الہند کے کمانڈر ذاکر موسیٰ اور ایوب للہاری شامل ہیں۔ ذاکر موسیٰ کو سیکورٹی فورسز نے اونتی پورہ علاقے میں ایک تصادم کے دوران ہلاک کیا تھا۔

اس کے علاوہ لشکر طیبہ تنظیم کے نوید جھاٹ بھی شامل ہے جس کی ہلاکت بڈگام ضلع میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ ایک تصادم میں ہوئی۔

For All Latest Updates

ABOUT THE AUTHOR

...view details