ان انتخابات میں جہاں بے جے پی نے تعمیر و ترقی کا نعرہ دیکر بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلائی اور لوگوں کی حمایت حاصل کرنی چاہی تاہم وہ رائے دہندگان اس پارٹی کی طرف مائل نہیں ہوسکے۔
اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہونے کی راہ ہموار بنانے کی کوشش بی جے پی کا مقابلہ جموں و کشمیر کی روایتی سیاسی جماعتوں نے مل کر کیا، نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس اور دیگر سیاسی جماعتوں نے متحدہ طور 'پیپلز الاینس فار گپکار ڈیکلیریشن' کے نام سے ان انتخابات میں حصہ لے کر سب سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔
نتائج سامنے آنے کے بعد بی جی پی نے جہاں دیگر پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ 75 سیٹوں پر کامیاب حاصل کی ہے تاہم گپکار الائنس نے متحدہ طور 110 سیٹوں پر قبضہ جمائے۔
ان نتائج سے یہ ظاہر ہوا کہ بھاجپا جموں صوبے کے پانچ اضلاع میں ڈی ڈی سی کونسل تشکیل دے گی جبکہ الائنس 10 کے قریب کونسلز بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
وہیں اپنی پارٹی بھی تین اضلاع میں آزاد امیدواروں اور ہارس ٹریڈنگ سے تین اضلاع میں کونسل بنانے کی کوشش میں لگی ہے۔
یہ انتخابات اس لحاظ سے دلچسپ تھے کیونکہ یہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد منعقد کیے گئے۔
اگرچہ بی جے پی کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات تعمیر و ترقی کے لئے لڑے گئے وہیں گپکار الائنس نے کہا کہ یہ انتخابات بھاجپا کے پانچ اگست کے فیصلے کے مخالف جموں و کشمیر کے عوام کی متحدہ آواز ہے۔
گپکار الائنس کے شریک عوامی نیشنل کانفرس کے نائب صدر مظفر شاہ نے بتایا کہ بے جی پی ڈی ڈی سی انتخابات کے انعقاد سے دنیا کو دکھنا چاہتی تھی کہ جموں و کشمیر کے لوگ دفعہ 370 کی منسوخی سے متفق ہے، لیکن انتجابی نتائج سے صاف ظاہر ہوا کہ لوگ ان کے فیصلے سے ناراض ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار اور سینیئر صحافی الطاف حسین نے بتایا کہ بے جی پی کا ضلع ترقیاتی کونسل منعقد کرنے کا اصل مقصد تھا کہ جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتیں بالخصوص نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پنچایتی انتخابات کی طرح ان کا بائیکاٹ کرے تاکہ انہیں اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہونے کی راہ ہموار ہو سکے۔
بیشتر لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ان انتخابات میں حصہ لے کر مقامی سیاسی جماعتوں کے لئے دفعہ 370 کے بعد کے جموں کشمیر میں پھر سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا موقع دستیاب ہوا۔