لوگوں کے جم غفیر نے گونی کو فلک شگاف نعروں جیسے 'دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا' کے بیچ پہلے جامع مسجد اور پھر جلوس کی صورت میں اپنے گھر پہنچایا۔
بتادیں کہ گونی کو سال 1996 میں دھماکوں کے سلسلے میں وشاکا پٹنم سے واپسی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
عبدالغنی گونی نے اپنے گھر میں اپنی گرفتاری کی روداد میڈیا کو بیان کرتے ہوئے کہا: 'میں وشاکا پٹنم تبلیغ کے لئے گیا ہوا تھا، وہاں چالیس دن گذارنے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا کہ ایک اسٹیشن پر پوچھ تاچھ ہورہی تھی جب مجھ سے پوچھ تاچھ کی گئی اور کہا گیا کہاں کے رہنے والے ہو تو جوں ہی میں نے کہا کہ میں جموں کا رہنے والا ہوں تو انہوں نے جو سیول کپڑوں میں ملبوس تھے، نے مجھے اٹھایا اور ایک نامعلوم جگہ پر لے گئے اور پھر مجھے بعد میں پتہ چلا کہ مجھے شاہی آباد احمد آباد انٹرو گیشن سینٹرلا یا گیا ہے'۔
غنی گونی نے کہا کہ مجھے پھر ایک دن کے بعد راجستھان پولیس کی ریمانڈ میں دیا گیا۔ انہوں نے کہا: 'مجھے دوسرے دن ہی احمد آباد لایا گیا۔ یہاں مجھے جج صاحب کے سامنے پیش کرنے کے بجائے بس میں ہی مجھے رکھا گیا اور وہیں سے چودہ دنوں کی ریمانڈ میں لیا گیا لیکن ان چودہ دنوں کے اندر کوئی پوچھ تاچھ نہیں کی گئی اور نہ ہی مجھ سے کسی قسم کے دستخط لئے گئے۔
اس کے بعد راجستھان پولیس نے مجھے ریمانڈ میں لے لیا اور مجھے جے پور لایا گیا، جج صاحب نے انہیں ریمانڈ نہیں دی تھی لیکن انہوں نے سفارش کرکے مجھے ریمانڈ میں لے لیا'۔
غنی نے کہا کہ جے پور کے انٹروگیشن سینٹر میں مجھے دو کیسوں میں پھنسایا گیا ایک 26 جنوری کے اسٹیڈیم کے کیس میں اور دوسرا سمالیٹی کا کیس تھا اور پہلی بار چارج شیٹ دائر کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ میں ان لوگوں سے کہتا تھا کہ مجھے بلی کا بکرا کیوں بنایا جارہا ہے تو وہ کہتے تھے کہ ہم پر حکومت کا دباؤ ہے اور حکومت پر لوگوں کا دباؤ ہے، 28 دنوں تک پھر کوئی پوچھ تاچھ نہیں کی گئی یہ زبردستی والال معاملہ تھا۔
غنی نے کہا کہ دلی میں مجھے پولیس میری چھ دنوں کی ریماند مانگ رہے تھے لیکن وہاں ایک کشمیری وکیل تھا وہ کہہ رہا تھا کہ دو دنوں کی ریمانڈ میں لیجئے لیکن وہاں جج صاحبہ اس قدر متعصب تھی کہ انہوں نے چودہ دنوں کی ریمانڈ میں بھیج دیا۔ اور پھر مجھے سی جے یو کمپلیکس لاجپت نگر منتقل کیا گیا جہاں سے تہاڑ جیل بھیج دیا گیا جہاں چودہ برسوں تک رہا۔
انہوں نے کہا کہ وہاں بارہ برسوں کے بعد چارج لگایا گیا وہاں جج اچھا ملا وہ پہلے بھی جج رہ چکا تھا انہوں نے کہا کہ تم ابھی بھی بند ہو تو میں کہا جی ہاں، میں بے گناہ ہوں میری بے گناہی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ میرے پاس سٹیٹ سبجیکٹ سرٹیفکیٹ ہے دوسرے اسناد ہیں لیکن مجھے پاکستانی باشندہ دکھایا گیا ہے پھر انہوں نے تین مہینوں کے اندر فیصلہ سنایا اور مجھے بری قراردیا لیکن میں ایک کیس میں بری ہوگیا تو دوسرے کیس میں بند ہوگیا۔
گونی نے کہا کہ پانچ برسوں تک صرف تاریخ پہ تاریخ رکھتے تھے جو جج ہمارے حق میں تھوڑی بہت بات کرتا تھا اس کو تبدیل کیا جاتا تھا پھر اپریل 2010 میں بھی مجھے بری کیا گیا۔ انہوں نے کہا تاہم پھر بالآخر ہمیں تمام کیسوں میں باعزت بری کیا گیا۔
اس موقع پرگونی کی ہمشیرہ نے روتے روتے کہا کہ آج ہمیں بھائی کو دیکھ کر خوشی ہورہی ہے لیکن اس دوران ہماری والدہ اس کے انتطار میں انتقال کرگئی میں ان کو روز جھوٹ بولا کرتی تھی کہ آج رہا ہوں گے کل رہا ہوں، ہم نے چودہ برسوں تک جیلوں کی خاک چھانی اور ان کی رہائی کے لئے کافی پیسہ خرچ کیا۔
غنی گونی کے بڑے برادر نے کہا کہ آج میرے بھائی کو نئی زندگی ملی ہے ہم ان کی رہائی کے لئے روز دعا کرتے تھے، روتے تھے لیکن آج وہ شیر ببر کی طرح گھر واپس آئے۔
انہوں نے لوگوں کو شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے لوگوں نے برستی بارش کے بیچ میرے بھائی کا استقبال کیا جس پر میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔