رپورٹ کے مطابق ہلاک شدہ افراد میں 14 ہزار38 عام شہری، 5ہزار 292 سکیورٹی اہلکار اور 22ہزار 536 عسکریت پسند تھے۔
میڈیا رپورٹز کے مطابق سنہ 1990 کی دہائی کے دوران عسکریت پسندی عروج پر تھی اور ہر سال 3 سے 6ہزار کے درمیان واقعات پیش آ تے رہے۔ گذشتہ 10 برسوں میں ہر سال ان واقعات کی تعداد میں 500 کی کمی رپورٹ کی گئی۔
جموں و کشمیر: تین دہائیوں میں 42 ہزار افراد ہلاک رپورٹ کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب مرکزی حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ وادی کی صورتحال معمول کی طرف گامزن ہے۔وزارت داخلہ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 4 ستمبر سے تمام لینڈ لائن رابطے بحال ہوگئے ہیں، سی آر پی سی سیکشن 144 کے تحت 27 ستمبر سے تمام تھانوں پر پابندی ختم کردی گئی ہے،23 اکتوبر سے اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں، اور 14 اکتوبر سے تمام اضلاع میں موبائل فون رابطے بحال ہوگئے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق جموں میں 5 اگست سے لینڈ لائن سروسز پر پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔ لداخ خطے کو ان پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وزارت کے مطابق چند علاقوں میں رات کے وقت پابندیاں عائد کردی گئیں تھی۔
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوا ہے کہ 5 اگست کے بعد جس دن حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران پولیس کی فائرنگ میں کسی بھی فرد کی موت نہیں ہوئی ہے۔ پتھراؤ کے واقعات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جو کہ 2018 میں 802 واقعات سے لے کر اب 2019 میں 544 ہوچکا ہے جس میں 5 اگست کے بعد 190 واقعات شامل ہیں۔