یہ اپنی نوعیت کی پہلی کامیابی ہے۔ پلاسٹک اور پالیتھین کے مسئلے کو حل کرنے کی طرف اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ملک کو پلاسٹک سے پاک بنانے کی بات جہاں کی جا رہی ہے، وہیں سی ایس آئی آر ہماچل انسٹی ٹیوٹ آف بائیوسیمپلڈ ٹکنالوجی (آئی ایچ بی ٹی) پالم پور کے سائنسدانوں نے ہماچل کی پہاڑیوں پر ملے جراثیموں (بیکٹیریا) کی نشاندہی کی ہے جو پلاسٹک کے متبادل کے طور پر کام میں آئے گا۔ سائنسدانوں کے ذریعہ دریافت کیے گئے یہ جراثیم (بیکٹیریا) قدرتی بائیوڈیگریڈیبل پلاسٹک بناتا ہے جو ایک ماہ کے عرصہ میں خودبخود تباہ ہو جاتے ہیں۔
سائنسدانوں کو ہماچل کی پہاڑیوں میں پلاسٹک کا متبادل ملا ہمالیائی انسٹی ٹیوٹ آف بائیوسیمپلڈ ٹکنالوجی پالم پور کے سائنسدانوں نے اس جراثیم کو ہمالیہ کے 3000 میٹر سے زیادہ کی بلندی پر دریافت کیا ہے۔ اس جراثیم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خود ہی پلاسٹک بناتا ہے اور ایک مہینے کے بعد یہ قدرتی بائیوڈیگریڈیبل پلاسٹک گندے پانی کے رابطے میں آجاتا ہے، تو یہ تباہ ہو جاتا ہے۔ یہ جراثیم اپنے جسم کے اندر 70 فیصد پلاسٹک بناتا ہے۔ لیبارٹری میں کیے گئے تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ اس پلاسٹک کا استعمال کھانے کی اشیاء کو پیک کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بائیوڈیگریڈیبل پلاسٹک کا استعمال دودھ، روٹی اور چپس کے پیکٹ وغیرہ میں کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال اس پر عمل کر پانا ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ نہ صرف ماحول کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ یہ بہت ساری پریشانیوں کا سبب بھی بن رہا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سنجے کمار اور سینیئر سائنسدان ڈاکٹر دھرم سنگھ نے کہا کہ پلاسٹک ہمارے طرز زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ پلاسٹک کی وجہ سے پورے ماحول میں آلودگی پھیل جاتی ہے۔ پلاسٹک صرف بھارت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک ماحول میں تباہ نہیں ہوتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں کچھ بائیوڈیگریڈیبل پلاسٹک کی ضرورت ہے۔ جب ہمارے سائنسدان ہماچل کی اونچی پہاڑیوں میں تلاش کر رہے تھے تو انہیں یہاں ایک جراثیم ملا جس کے اندر پلاسٹک خود بخود تیار ہوتا ہے اور جراثیموں سے 70 سے 80 فیصد بائیوڈیگریڈیبل پلاسٹک تیار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پایا کہ اگر اس بائیوڈیگریڈیبل پلاسٹک کے اندر کوئی گیلا مواد ڈالیں گے تو وہ خراب نہیں ہوگا، لیکن اس کے اندر آلودہ پانی یا آلودہ دودھ یا اس طرح کی دوسری چیزیں ہوں گی تو یہ بیگ خراب ہونا شروع ہو جائے گا، تب ہم نے دیکھا کہ اس پلاسٹک کو ہم اسے اس طرح پھینک دیں گے۔ ایک مہینے کے بعد یہ بایوڈیگریڈیبل پلاسٹک دریا یا نالی میں پگھلنا شروع ہو جائے گا۔ بائیوڈیگریڈیبل پلاسٹک ماحول کے لیے ایک ورثہ ہے۔ ہم بائیوڈیگریڈیبل پلاسٹک کو بازار میں میں متعارف کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کوٹہ: جے کے لون ہسپتال میں بچوں کی اموات میں اضافہ