ہماچل پردیش کے دارلحکومت اور انگریزوں کے دور اقتدار میں سمر کیپیٹل (موسم گرما کا پایہ تخت) شملا آج صرف صاف و شفاف آب و ہوا کے اور برف کی چادروں سے ڈھکی وادیوں کے خوشنما منظر کے لئے ہی مشہور نہیں ہے بلکہ یہ شہر اپنے دامن میں سمیٹے کئی تاریخی لمحات کے لئے بھی جانا جاتاہے۔
ہماچل پردیش کے تاریخی وارثت کی فہرست میں شامل شملا کے اسکین اسکینڈل پوائنٹ کے قریب ہی واقع شملا جنرل پوسٹ آفس بھی اپنے آپ میں کچھ ایسے ہی کہانیاں بزبان حال بیان کر رہی ہیں۔
حال ہی میں وراثت کی فہرست میں جگہ پا چکی ( جی پی او) یعنی جنرل پوسٹ آفس کی اس عمارت کے مقام پر کبھی متعدد دوکانیں ہوا کر تی تھیں ۔
تاریخی مال روڈ پر اسکینڈل پوائینٹ کے قریب واقع جی پی او کی تعمیر 1883 میں کی گئی تھی ۔
ڈاک خانہ بننے سے قبل یہ عمارت کانی لاج کے نام جا نا جا تا تھا ۔
1880 میں شعبہ ڈاک نے انگریز پیٹرسن سے اس تاریخی عما رت کو خرید لیا اور اس کے بعد سے ہی اس عمارت میں ڈاک کے امور کا آغاز ہوا۔
ابتدائی دور میں اس مقام پر یورپین درزی اینگل برگ اینڈ کمپنی کی کئی دوکا نیں تھیں ۔ کپڑوں کی سلائی کا کام بند ہونے کے بعد اس عمارت میں چندعرصہ تک شملہ بینک بھی چلتا رہا ۔
اس کے بعد اس عمارت کو اس کے مالک پیٹرسن سے خرید لیا گیا ۔ اس کے بعد 1883 میں کاٹیج کے نام سے ہی یہاں ڈاک کے سرگرمیوں کا آغاز ہوا ۔ جس میں بیرون ممالک کے ڈاک آیا کرتے تھے۔
انگریزوں کے دور اقتدار میں جب شملہ جی پی او میں بیرون ممالک کے ڈاک آتے تھے تو اس وقت ڈاک خانے کے اس عما رت پر سرخ رنگ کا جھنڈا لہرا گر اور گھنٹی بجا کر اس کے بارے میں اطالاعات فراہم کی جا تی تھیں ۔
جس سے یہ اشارے ملتے تھے کہ ڈاک آچکی ہے اور انگریز افسران اپنے خادموں کو یہاں بھیج کر ڈاک منگوا لیں۔۔
ڈاک سے صرف خطوط ہی نہیں بلکہ رسالے ،اخبارات،کپڑے کے علاوہ دیگر ضروری چیزیں بھی اس ذریعہ سے شملہ پہونچتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جس دن ڈاک آتی تھیں تو اسی رات میں لالٹین کی روشنی میں سامان تقسیم کئے جاتے تھے۔اتوار کو بھی ان ملا زمین کو چھٹی نہیں ملتی تھی۔