چنڈی گڑھ: حکومت اس بات کی جانچ کر رہی ہے کہ نوح میں آگ زنی اور تشدد کے واقعے کا ذمہ دار کون ہے۔ لیکن جس طرح سے اتنے بڑے پیمانے پر فساد ہوا، اس نے حکومت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا برج منڈل یاترا کے پیش نظر خاطر خواہ سیکورٹی کا بندو بست نہیں کیا گیا؟ کیا یہ پولس اور انتظامیہ کی کوتاہی ہے یا حکومت کو اس طرح کا کوئی ان پٹ نہیں مل سکا؟
نوح تشدد، سازش اور سیاست
نوح فساد میں سیکڑوں گاڑیاں جلا دی گئیں، چھ گھروں میں موت کا ماتم منایا جا رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر آگ زنی، گولی باری کی گئی لیکن پولیس انتظامیہ شرپسندوں اور فسادیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ یہ سب اتنی آسانی سے کیسے ہو گیا؟ اگر اس پورے واقعے کو دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تشدد اور فساد کی تیاریاں پہلے سے کی گئی تھیں۔ لیکن، پھر پولیس اور انتظامیہ نے یاترا کو اجازت کیوں دی اور پھر یاترا کو مجوزہ راستے سے ہٹ کر حساس علاقے سے لے جانے پر روکا کیوں نہیں گیا؟ کیا مونو مانیسر جیسے بدنام زمانہ مفرور ملزم کے ویڈیو پیغام کے بعد بھی پولیس اور انتظامیہ کو کسی بات کا کوئی علم نہیں تھا؟
نوح کے ایس پی تشدد کے دن چھٹی پر تھے
اس معاملے میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہریانہ کے نوح ضلع کے ایس پی تشدد پھوٹ پڑنے کے دن چھٹی پر تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی غیر موجودگی میں پلوال کے ایس پی کو ذمہ داری سونپی گئی، جانکاری کے مطابق جب تشدد شروع ہوا تو وہ بھی وہاں موجود نہیں تھے۔ دوسری طرف ایس پی کی چھٹی پر وزیر اعلیٰ منوہر لال کا کہنا ہے کہ نوح کے ایس پی اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق 10، 12 دن پہلے چھٹی پر گئے تھے۔ اس وقت ایسا کوئی امکان نہیں تھا۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ جب یہ امکان پیدا ہوا تو ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے اس معاملے میں ایک دن پہلے دونوں فریق کے ساتھ میٹنگ کی تھی، جس میں انہیں یقین دلایا گیا کہ یاترا پرامن ہوگی اور کسی قسم کی کشیدگی نہیں ہوگی۔ وہ مسلسل اس پر نظر رکھے ہوئے تھے لیکن اچانک یہ سب کچھ ہو گیا۔ اب تحقیقات میں جو بھی بات سامنے آئے گی، یا سازش کا کوئی سراغ ملا تو کارروائی کی جائے گی۔
یاترا کی سکیورٹی کیلئے 900 اہلکاروں کی تعیناتی
بتایا جا رہا ہے کہ اس یاترا کی سکیورٹی 900 پولس والوں کو سونپی گئی تھی، لیکن سوال یہ ہے کہ جب حساس قتل معاملے میں مفرور و مطلوب ملزم ویڈیو پیغام جاری کر کے یاترا میں شرکت کا اعلان کر رہا تھا تو پولیس کو اس یاترا کو لے کو کوئی شک کیوں نہیں ہوا؟ یہ پتہ لگانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی ہے کہ اس یاترا کی آڑ میں کہیں کوئی سازش تو نہیں رچی گئی ہے؟
ہریانہ کے وزیر تعلیم کا بیان
جب ہریانہ کے وزیر تعلیم کنور پال گرجر سے اس پر بات کی گئی اور پوچھا گیا کہ کیا آپ کو یقین نہیں ہے کہ اس میں حکومت کی سیدھی ناکامی ہے۔ اس پر ہریانہ حکومت کے کابینہ وزیر کنور پال گرجر کا کہنا ہے کہ جس طرح سے پہلے پولس اس یاترا کے لیے ہر چیز کا بندوبست کرتی تھی، اسی طرح کا انتظام کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسا کہ میں نے یاترا میں شامل کچھ لوگوں کی ویڈیو میں یہ گفتگو سنی ہے کہ وہاں 500 پولیس اہلکار تعینات تھے۔ ان کا ماننا ہے کہ پولیس کو اتنی بڑی سازش کی اطلاع نہیں مل سکی۔ اگر کوئی افسر بھی اس کے لیے قصوروار ہے تو یقیناً حکومت اس کے خلاف بھی کارروائی کرے گی۔
آخر نوح تشدد کا ذمہ دار کون؟
مونو مانیسر کی سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ویڈیو کو بھی اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ مونو مانیسر کی جانب سے یاترا میں شرکت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ویڈیو کی وجہ سے وہاں پر تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ قابل ذکر ہے کہ برج منڈل یاترا سے قبل مونو مانیسر نے یاترا میں شرکت کا ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا، جس کی وجہ سے حالات بگڑ گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ یاترا کی آڑ میں شرپسندوں نے ممکنہ طور پر پہلے سے ہی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ مونو مانیسر اور ایک دیگر شخص بٹو بجرنگی کو اس فساد کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔
'ہریانہ حکومت کے پاس مونو مانیسر کے بارے میں کوئی ان پٹ نہیں'
مونو مانیسر کے بارے میں وزیر اعلی منوہر لال کا کہنا ہے کہ جہاں تک مونو مانیسر کا تعلق ہے، راجستھان حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ہم نے راجستھان حکومت سے کہا ہے کہ اسے تلاش کرنے کے لیے انہیں کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہو، ہم مدد کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ راجستھان پولیس مونو مانیسر کو تلاش کر رہی ہے، وہ کہاں ہے، فی الحال ہمارے پاس اس کے بارے میں کوئی ان پٹ نہیں ہے۔ راجستھان پولس اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے آزاد ہے، ہم جتنی مدد کی ضرورت ہے کریں گے۔
مزید پڑھیں: Nuh Violence نوح تشدد میں چھ افراد ہلاک، سو سے زیادہ افراد گرفتار، آٹھ اضلاع میں حکم امتنازعی نافذ
ہریانہ کے وزیر داخلہ کا عجیب و غریب ردعمل
دوسری جانب مونو مانیسر کی سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی ویڈیو کے بعد ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج نے اقلیتی فرقے کو ہی گھیرتے ہوئے کہا کہ 'اس پورے واقعے کی دلیل یہ ہے کہ ایک مفرور ملزم نے سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کی تھی۔ یہ درست نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کسی کا گھر جلا دو، گاڑیاں جلا دو، گولیاں چلاؤ، یہ کس کتاب میں لکھا ہے؟ فرض کریں کسی مجرم نے ویڈیو ڈال دی تو کیا یہ سب ہو جائے گا؟ اس طرح سب کچھ مجرم کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔ '' آخر میں انہوں نے توازن بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر اس معاملے میں مونو مانیسر کا کوئی کردار ہے تو ان کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔
انٹیلی جنس نظام پر سوال
دوسری طرف ریاستی حکومت مسلسل کہہ رہی ہے کہ یہ سارا واقعہ منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا گیا ہے۔ کسی نہ کسی نے اس سارے واقعے کو انجام دینے کی سازش کی ہے۔ لیکن، ایسی صورت حال میں سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کا انٹیلی جنس نظام اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے؟ یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ یہ سارا واقعہ انٹیلی جنس سسٹم کی ناکامی کی وجہ سے پیش آیا۔ کیونکہ جس طرح سے یاترا سے پہلے کشیدگی کا ماحول بنایا گیا، پھر یاترا کا رخ بلا اجازت حساس علاقے کی طرف موڑا گیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ اس سے متعلق جانکاری حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس سلسلے میں سوال پر وزیر اعلیٰ منوہر لال کا کہنا ہے کہ 'معاملے کی تمام تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی تمام چیزیں بتانا ٹھیک ہے۔ جانچ کے بعد آپ کو سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔' لیکن ریاستی وزراء کی جانب سے 'یاترا پر پتھربازی' پر زور دیتے ہوئے جس نوعیت کے بیانات سامنے آ رہے ہیں اس ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت نے پہلے سے ہی نتیجہ اخذ کر لیا ہے۔